تا بہ دامانَش رسد دستم بہ امدادِ نسیم
جسمِ من در رہگذارش خاک بُودے کاشکے تا کہ میرا ہاتھ اُس کے دامن تک بادِ نسیم کی مدد سے پہنچ پاتا،اے کاش کہ میرا جسم اُس کی راہوں میں خاک ہو گیا ہوتا
معلیٰ
جسمِ من در رہگذارش خاک بُودے کاشکے تا کہ میرا ہاتھ اُس کے دامن تک بادِ نسیم کی مدد سے پہنچ پاتا،اے کاش کہ میرا جسم اُس کی راہوں میں خاک ہو گیا ہوتا
ایں ارض و سما تمام کاشانہٴ اُوست عالم ہمہ دیوانہٴ افسانہٴ اُوست عاقل بوَد آں کسے کہ دیوانہٴ اُوست صرف یہ دیر و حرم ہی اُس کے ٹھکانے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام ارض و سماوات اُس کے کاشانے ہیں ساری دنیا اُس کے افسانوں کی دیوانی اور اُن افسانوں میں کھوئی ہوئی ہے لیکن […]
چہ حاجت است کہ دیگر سخن دراز کنم تُو آبِ حیات ہے اور میں پیاسا، (قصہ مختصر) یہ کنایہ، یہ رمز، یہ اشارہ ہی کافی ہے (اور اسی سے سب کچھ سمجھ جا)،مجھے دوسری لمبی لمبی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے
گر صد ہزار عیب بوَد یک ہنر بس است گناہوں سے آلودہ دامن کی صفائی کے لیے چشمِ تر ہی کافی ہے،اگر لاکھوں عیب بھی ہوں تو پھر بھی یہی ایک ہنر ہی کافی ہے
در ہجر، خیالش دل و ایمانِ من است دل با من و من با دل ازو در جنگیم ہر یک گوئیم کہ آں صنم آنِ من است وصل میں، اُس کا جمال میرا ہنستا مسکراتا کھلکھلاتا پُھول ہے۔ ہجر میں اُس کا خیال، میرا دل، میرا دین ایمان ہے دل میرے ساتھ اور میں دل […]
بوسید آستانش و با بوسہ جاں سپرد دل نے نقدِ جاں، درِ محبوب کی خاک کے سپرد کی، یعنی اُس کے آستانے کو بوسہ دیا اور بوسے کے ساتھ ہی جان بھی دے دی
سر چو بے مغز بوَد نغزیِ دستار چہ سُود دل جب پاک و پاکیزہ ہو تو جامۂ ناپاک سے کیا ڈر خوف اور سر جب مغز سے خالی ہو تو پھر دستار کے نغز (لطافت، عمدگی، زیبائی) سے کیا فائدہ؟
علاجِ دیدۂ عاشق بہ توتیا کفر است وہ تو محبوب کے کوچے کی خاک سے روشن اور پُر نور ہوتی ہیں، عاشق کی آنکھوں کا علاج سُرمے (یا کسی دوا) سے کرنا (عاشقوں کی طریقت میں) کفر ہے
جاں پرور است کشتۂ تیغِ تو در کفن تیرے عشق میں مرا ہوا قبر کے اندر بھی زندہ دل ہے اور تیری تلوار کا مارا ہوا کفن کے اندر بھی جاں پرور ہے
کہ خارِ دشتِ محبت گُل است و ریحان است طالبِ دوست کے (اُٹھے ہوئے) قدموں کے لیے سفر دراز اور مشکل نہیں ہوتا کیونکہ دشتِ محبت کے کانٹے بھی پھول اور نرم و نازک خوشبو دار سبزے کی طرح ہیں