بجز غوغائے عشقِ تو درونِ دل نمی یابم

بجز سودائے وصلِ تو میانِ جاں نمی دانم تیرے عشق کے شور و ہنگامہ و نعرہ و ہمہمہ کے سوا میں اپنے دل کے اندر اور کچھ بھی نہیں پاتا،اور تیرے وصل کے جنون و دیونگی و شوق کے سوا میں اپنی جان میں اور کچھ بھی نہیں جانتا

بسکہ بُوئے تو کُنَد بے خبر از خویش مرا

رَوَم از خانہ بہ دُنبالِ صبا آخرِ شب بس کہ تیری خوشبو مجھے اپنے آپ سے بے خبر کر دیتی ہو، سو رات کے پچھلے پہر (سحر کے قریب) میں اپنے گھر سے نکل کر بادِ صبا (جو تیری خوشبو لیے ہوتی ہے) کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں

بہ قمار خانہ رفتم، ہمہ پاکباز دیدم

چو بہ صومعہ رسیدم، ہمہ یافتم دغائی میں قمار خانے میں گیا تو وہاں میں نے سارے کے سارے پاکباز (ایماندار) لوگ دیکھے،اور جب میں عبادت گاہوں میں پہنچا تو وہاں مجھے سارے کے سارے ریا کار اور دغا باز ملے

بیم از وفا مدار و بدہ وعدۂ کہ من

از ذوقِ وعدۂ تو بہ فردا نمی رسم میرے ساتھ صرف وصل کا وعدہ کر لے اور اس وعدے کو پورا کرنے سے مت ڈر کیونکہ میں تیرے وعدے کے ذوق و شوق اور خوشی ہی سے مر جاؤں گا اور وعدے کے وقت تک نہیں رہ پاؤں گا

ترساں ترساں ہمی روم بر اثرش

پرساں پرساں ز خلقِ عالم خبرش آساں آساں اگر نیابم وصلش بوساں بوساں لبِ من و خاکِ درش ڈرتے ڈرتے اُس کی کھوج میں چلا جاتا ہوں اور خلقِ عالم سے اُس کی خبر پوچھتا پھرتا ہوں اُس کا وصل اگر مجھے آسانی سے نہیں ملتا تو اُس کے در کی خاک پر اپنے ہونٹوں […]

تشنہ لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جاں دہم

گر بہ موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا اگر دریا کی لہریں دیکھ کر میرے دل میں یہ شبہ بھی گزر جائے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر پیشانی پر بل ڈال لیے ہیں تو میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ پیاسا ساحل پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا