با گوشہ نشیناں بنشیں تا بنشینَد
ہر فتنہ کہ برخاستہ در رہگذر از تو گوشہ نشینوں کے پاس بیٹھ جا تا کہ بیٹھ جائے ہر وہ فتنہ کہ جو تیری وجہ سے رہگزر میں اُٹھا ہے
معلیٰ
ہر فتنہ کہ برخاستہ در رہگذر از تو گوشہ نشینوں کے پاس بیٹھ جا تا کہ بیٹھ جائے ہر وہ فتنہ کہ جو تیری وجہ سے رہگزر میں اُٹھا ہے
بجز سودائے وصلِ تو میانِ جاں نمی دانم تیرے عشق کے شور و ہنگامہ و نعرہ و ہمہمہ کے سوا میں اپنے دل کے اندر اور کچھ بھی نہیں پاتا،اور تیرے وصل کے جنون و دیونگی و شوق کے سوا میں اپنی جان میں اور کچھ بھی نہیں جانتا
رَوَم از خانہ بہ دُنبالِ صبا آخرِ شب بس کہ تیری خوشبو مجھے اپنے آپ سے بے خبر کر دیتی ہو، سو رات کے پچھلے پہر (سحر کے قریب) میں اپنے گھر سے نکل کر بادِ صبا (جو تیری خوشبو لیے ہوتی ہے) کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں
چو بہ صومعہ رسیدم، ہمہ یافتم دغائی میں قمار خانے میں گیا تو وہاں میں نے سارے کے سارے پاکباز (ایماندار) لوگ دیکھے،اور جب میں عبادت گاہوں میں پہنچا تو وہاں مجھے سارے کے سارے ریا کار اور دغا باز ملے
کہ آتشے کہ مرا سوخت خویش را ہم سوخت پروانے کی لوحِ مزار پر میں نے یہ لکھا دیکھا کہ جس آگ (شمع) نے مجھے جلایا اُس نے خود اپنے آپ کو بھی جلا لیا
تو گماں داری کہ از بہرِ بیانت دادہ اند یہ تیغِ زباں تجھے گفتگو قطع کرنے کے لیے دی گئی ہے اور تُو اِس وہم و گمان میں ہے کہ یہ تجھے بیان بازیوں کے لیے دی گئی ہے
از ذوقِ وعدۂ تو بہ فردا نمی رسم میرے ساتھ صرف وصل کا وعدہ کر لے اور اس وعدے کو پورا کرنے سے مت ڈر کیونکہ میں تیرے وعدے کے ذوق و شوق اور خوشی ہی سے مر جاؤں گا اور وعدے کے وقت تک نہیں رہ پاؤں گا
گر نبضِ اُو نمی نگری بنگر آبِ چشم تیری خواہش و آرزو کی بیماری نے جسم کو ضعیف و لاغر کر دیا اگر تُو (ہاتھ پکڑ کر اُس کی ڈوبتی ہوئی) نبض نہیں دیکھتا تو آنکھوں میں آنسو ہی دیکھ لے
پرساں پرساں ز خلقِ عالم خبرش آساں آساں اگر نیابم وصلش بوساں بوساں لبِ من و خاکِ درش ڈرتے ڈرتے اُس کی کھوج میں چلا جاتا ہوں اور خلقِ عالم سے اُس کی خبر پوچھتا پھرتا ہوں اُس کا وصل اگر مجھے آسانی سے نہیں ملتا تو اُس کے در کی خاک پر اپنے ہونٹوں […]
گر بہ موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا اگر دریا کی لہریں دیکھ کر میرے دل میں یہ شبہ بھی گزر جائے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر پیشانی پر بل ڈال لیے ہیں تو میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ پیاسا ساحل پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا