سخت بے چینی کا عالم بھی مکمل چین بھی

مرحلے ہیں چند ہجر و وصل کے ما بین بھی نام لے لے کر بُلاتے جسم کی گہرائیاں دائرہ در دائرہ ، مخروط بھی ، قوسین بھی ”قاف“ قامت کی قیامت ، ”شین“ شوخی شعر کی عشق کی تکمیل کو عریاں بدن کا ”عین“ بھی مرتعش لب تو چلو ہونٹوں سے ڈھانپے جا چکے داستاں […]

صد چاک ہی دامان و گریبان بھلے ہیں

پر جب بھی چلے چال قیامت کی چلے ہیں ہم خاک میں پیوست ہوئے تھے کہ اُگے تھے اک عمر ہوئی ہے کہ نہ پھولے نہ پھلے ہیں آفاقِ توقع پہ اُبھرتے تو رہے ہم ہر شام بھلے دشتِ ندامت میں ڈھلے ہیں ممکن نہ ہوا شب کی سیاہی کا ازالہ ہم یوں تو کئی […]

تمہارے لمس کی حدت سے تن جھلستا تھا

میں برف پوش ، مگر آگ کو ترستا تھا پگھل رہا تھا مرا ضبط ، اور ہر قطرہ مرے وجود پہ تیزاب سا برستا تھا مرا جنون بھی سر بہ سجود ہے آخر مرا غرور تو پہلے ہی دست بستہ تھا تنے ہوئے تھے سبھی تار بربطِ دل کے وہ انہماک سے ہستی کے تار […]

تمہارے درد سے اپنے ملال سے خائف

گزر رہی ہے عجب ماہ و سال سے خائف جھجھک رہا ہے دریدہ دہن ، تکلم سے وہ حال ہے کہ نظر ہے جمال سے خائف تمہارا حسن مہربان ہے ، مگر دل ہے تمہارے قرب سے لرزاں وصال سے خائف حضورِ وقت کھڑا ہے شکست خوردہ جنوں حسابِ سُود و زیاں کے سوال سے […]

تو سنگِ درِ یار سلامت ہے ، جبیں بھی؟

گویا کہ فسانے میں بڑے جھول رہے ہیں تم محوِ تکلم جو نہیں ہو تو یہ کیا ہے اشعار بھلا کس کی زباں بول رہے ہیں آواز کھنکتی ہے سماعت میں ابھی تک الفاظ ابھی کان میں رس گھول رہے ہیں تُم درجہ ِ احسان کی تکمیل ، مجسم ہم دستَ طلبگار ہیں ، کشکول […]

تیری آغوش کی جنت سے نکالے ہوئے ہم

در بدر آج بھی ہیں خواب سنبھالے ہوئے ہم جام ہو کر بھی کہاں تیرے لبوں تک پہنچے جشن کی رات ہواؤں میں اچھالے ہوئے ہم آ گرے لوٹ کے دامن میں ہی کھوٹے سکے تیرے در سے بھی ہمارے ہی حوالے ہوئے ہم رُل گئے خاک میں دوپہر کے ہوتے ہوتے صبح کی گود […]

کوئی صدا ، سوال ، طلب ، کچھ نہیں رہا

اب ماسوائے جان ، بہ لب ، کچھ نہیں رہا اب ہمکلام ہو ، تو ذرا احتیاط سے لہجے میں اب لحاظ ، ادب ، کچھ نہیں رہا جوڑا تھا جو وجود بدقت ، بکھر چکا تم آج لوٹتے ہو کہ جب کچھ نہیں رہا اُٹھتے ہیں اُس کے ہاتھ فقط الوداع کو اب گویا […]

ماحول خوابناک ، نہ ہی وقت شب کا تھا

اس وقت تیز دھوپ تھی یہ خواب جب کا تھا کوئی نہ تھا کمال ، تمہارے فقیر میں بس خانماں خراب کا لہجہ غضب کا تھا دہلیز پر نثار کیا ، تاج دار سر وہ حسن مستحق ہی نیاز و ادب کا تھا جس کو سخن کے سحر نے خاموش کر دیا یہ جادوئی کلام […]

عمر بس اعداد کی گنتی سے بڑھ کر کچھ نہیں

زندگی ، کارِ عبث، جس کی نہایت موت ہے لوٹ کر جانے کا کس کمبخت کو اب حوصلہ راہ سے بھٹکے ہوؤں کو اب ہدایت موت ہے یہ بکھیڑا ، جو بنامِ زندگی پالا گیا اس مشقت کی غرض کہیے کہ غایت موت ہے وہ جو اپنی ذات کے زندان میں بے چین ہیں ان […]

زیادہ کٹھن ہے ترک ِ نظارہ کے کرب سے

زیادہ کٹھن ہے ترکِ نظارہ کے کرب سے اُس محوِ دید کو پسِ منظر سے دیکھنا فی الحال میں زمین کو اُوپر سے دیکھ لوں پھر تو ہے تا ابد اسے اندر سے دیکھنا میں بھی افق پہ دید جماؤں گا دن ڈھلے تم بھی زمیں کی سمت ، سمندر سے دیکھنا وہ بے دِلی […]