خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر

اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا ستارے آج شام سے ہی آ گئے کمال پر نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے خزاں […]

بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے

تمام دن کا سلگتا سورج سمندروں میں اتر رہا ہے تمہاری یادوں کے پھول ایسے سحر کو آواز دے رہے ہیں کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مری گلی سے گزر رہا ہے الگ ہیں نظریں الگ نظارے عجب ہیں راز و نیاز سارے کسی کے جذبے چمک رہے ہیں کسی کا احساس مر رہا […]

تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے

روشنی دن کی سیہ رات ہوا کرتی ہے رنج اور غم کی جو برسات ہوا کرتی ہے دولت عشق کی خیرات ہوا کرتی ہے جب خیالوں میں دبے پاؤں وہ آ جاتا ہے وہ ملاقات ملاقات ہوا کرتی ہے اس کی خاموشی بھی طوفاں کا پتا دیتی ہے اس کی ہر بات میں اک بات […]

وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم

دل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم آرزو ہے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے دل میں کیا کیا ہے دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم تہمتیں ہم پہ لگی رہتی ہیں لیکن پھر بھی […]

مجھے اندر کا وحشی معتبر ہونے نہیں دیتا

جدھر انسانیت ہے یہ ادھر ہونے نہیں دیتا نمو کی ساری خاصیت پنہاں ہے میرے سینے میں زمیں کا شور ہی مجھ کو شجر ہونے نہیں دیتا اچانک ٹوٹ پڑتیں بجلیاں ہیں میرے خرمن پر برا دن اپنے آنے کی خبر ہونے نہیں دیتا میں جب بھی بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹوک دیتا […]

جو آگ کو گلزار کرے کوئی نہیں ھے

حق بات سر دار کرے کوئی نہیں ھے منسوب تو سورج سے کئی نام یہاں ہیں جو تیرگی کو تار کرے کوئی نہیں ھے آباد جہاں صورت انساں ہیں درندے ان محلوں کو مسمار کرے کوئی نہیں ھے سب گنگ زبانیں ہیں یہاں شاہ کے آگے جو رائے کا اظہار کرے کوئی نہیں ھے قاتل […]

دولت یقیں کی مل گئی اوہام بیچ کر

ہم سخت جان ٹھہرے ہیں آرام بیچ کر تیری طرح جہان میں اے پیرِ بے عمل اسلاف کا میں زندہ نہیں نام بیچ کر واجب سزائے ٹیکس ہے اس پر بھی شہر میں بچوں کا پیٹ بھرتا ہے جو آم بیچ کر اس شہرِ عیش میں کہاں احساس درد کا پتھر کے لوگ بن گئے […]

ریاکاری کی دولت ہی مجھے غم خوار دیتا ہے

جہاں مطلب نظر آئے تعلق وار دیتا ہے چمک درکار ہے تجھ کو تو ذرے کی طرح ہو جا پہاڑوں کو ہمیشہ وہ اندھیرے غار دیتا ہے یہاں نیت کو پھل لگتا ہے پیڑوں سے یہ کہہ دینا اسے کچھ بھی نہیں ملتا جو نیت ہار دیتا ہے اسے اب اپنا چہرہ دیکھنا اچھا نہیں […]

زخم دل کا بھر نہ جائے کہیں

لذتِ درد مر نہ جائے کہیں دیکھ کر میری خستہ حالی کو وہ جفاؤں سے ڈر نہ جائے کہیں شوق جو اُس کی راہ پہ چل نکلا راستے میں ٹھہر نہ جائے کہیں یہ ہوا بھی جنون پرور ہے مجھ کو دیوانہ کر نہ جائے کہیں اُس کو دیکھے بغیر ہی اسلمؔ عمر ساری گزر […]

جو رنگ ہرے تھے وہ دکھائی نہیں دیتے

دکھ درد ہی پیڑوں کو رہائی نہیں دیتے برباد کیا یوں میرے گلشن کو خزاں نے اب گیت پرندوں کے سنائی نہیں دیتے کچھ اور بڑھا دے نہ ستم باغ کا مالی سہمے ہوئے طائر ہیں دہائی نہیں دیتے آنے کو قیامت ہے کوئی اپنے جہاں پر حالات مجھے ٹھیک دکھائی نہیں دیتے جن لوگوں […]