یہ خوف سانپ کا دل سے نکالنا ہے مجھے

سو آستین میں اک سانپ پالنا ہے مجھے نہیں ہے اجنبی مہتاب کی مجھے حاجت یہ رات اپنے دیوں سے اجالنا ہے مجھے یہ کھیل عشق کا ہے اس میں مات ہے ہی نہیں ہوا میں عشق کا سکہ اچھالنا ہے مجھے یہ رستہ عام ہے اس پر تو سب ہی چلتے ہیں پئے سفر […]

اُس زلف کا اعجاز کسی کام نہ آیا

میں رندِ بلا نوش تہہِ جام نہ آیا کل رات معمائے خمِ کاکلِ خوباں جب تک نہ ہوا حل ، مجھے آرام نہ آیا اُس بندِ قبا کا جو ہوا مسئلہ درپیش مے خوار کا کوئی بھی ہنر کام نہ آیا اُس رات ستاروں میں بھی دیکھا گیا ٹھہراؤ جس رات کو گردش میں مرا […]

ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے

میزان دلبری پہ انہیں تولتے رہے عکس جمال یار بھی کیا تھا کہ دیر تک آئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سبُو رہا اسرار کِتم راز میں پَر تولتے رہے کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف جیسے کسی کا بند قبا کھولتے رہے ہر شب شبِ […]

اصلاحِ اہلِ ہوش کا یارا نہیں ہمیں

اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں ہم مے گُسار بھی تھے سراپا سخا و جود لیکن کبھی کسی نے پکارا نہیں ہمیں دل کے معاملات میں کیا دوسروں کو دخل تائیدِ ایزدی بھی گوارا نہیں ہمیں رندِ قدح گسار بھی ہیں بُت پرست بھی قدرت نے کس ہُنر سے سنوارا نہیں ہمیں دردِ […]

پیدا ہر ایک پیچ میں اک بات ہو گئی

کل شب وہ زلف حرف و حکایات ہو گئی وقفِ امورِ خیر رہی سرزمینِ دل بت خانہ اٹھ گیا تو خرابات ہو گئی پہنچے جو بے خودی کے مراتب کو حسن و عشق دونوں میں رات بھر کو مساوات ہو گئی اپنے محیطِ ذات میں گُم ہو گئے جو ہم اک ذاتِ بے کراں سے […]

صدائیں آ رہی ہیں کچھ گُلوئے نیم بسمل سے

کوئی سُن کر یہ افسانہ کہیں کہہ دے نہ قاتل سے کبھی اک اشکِ خوں گشتہ ، کبھی اک آہِ افسردہ نکل آئے ہیں دل کے راز کس کس رنگ میں دل سے نظامِ عالمِ الفت کہیں برہم نہ ہو جائے ذرا کچھ سوچ کر ہم کو اٹھانا اپنی محفل سے مآلِ لذتِ آزار ہیں […]

کعبہ جانا لاحاصل ، ناحق دِیر پرستی ہے

چشمِ بصیرت وا ہے اگر ، کعبہ دل کی بستی ہے بھول بھی جاؤ جانے دو میری وفا اور اپنی جفا تم پر کیا الزام مرے شوق کی کوتاہ دستی ہے رات کی تاریکی میں جب یاد کسی کو کرتا ہوں دل کے ظلمت خانے میں اک بجلی سی ہنستی ہے اک پیری صد عیب […]

ان سے مل کر بچھڑی نظریں بن کے مقدر پھوٹ گیا

اُن کے ہاتھوں کھیل میں آخر دل کا کھلونا ٹوٹ گیا افسانہ ہے جلوۂ ساقی ، ہائے کہاں اب بادۂ ساقی کش مکشِ اندوہِ وفا میں ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا غنچے چٹکے دیکھ نہ پائے ، پھول کھلے سب نے دیکھے گلشن گلشن عام ہے شہرت کلیوں کا دل ٹوٹ گیا دورِ بہاراں آئے […]

جلوؤں کا تصادم کیا کہیے ، یوں شعلہ و شبنم ہوتا ہے

ہے درد دوائے الفت بھی اور غم کا ہمدم ہوتا ہے تم عشق مجھے سمجھاتے ہو ، میں جانتا ہوں میں مانتا ہوں تعبیر ہے جس کی رنج و الم ، وہ خواب یہ ہمدم ہوتا ہے ساحل پہ کھڑے ہیں حیرت سے جو ان کو خبر کیا طوفاں کی ان بے چاروں کا حسرت […]

دوستوں کو دشمنوں کو بھول کر

اک ملن سب مسئلوں کو بھول کر اک پرانی یاد کو تازہ رکھا روزمرہ سانحوں کو بھول کر پوچھنا یہ ہے کہ ہجرت نصیب کیسے زندہ ہیں گھروں کو بھول کر اک نئی صورت کے دلدادہ ہوئے پچھلے سارے رابطوں کو بھول کر عشرتِ امروز میں گم گشتگی آنے والی ساعتوں کو بھول کر ٹوٹ […]