رہوں گر دور تجھ سے آتشِ فرقت جلاتی ہے

قریب آؤں تو تیرے سانس کی حدت جلاتی ہے تجھے چھو لوں تو جل اٹھوں ، نہ چھو پاؤں تو جلتا ہوں عجب نسبت ہے یہ جاناں ، بہ ہر صورت جلاتی ہے تجھے تھا چند ساعت میرے ساتھ دھوپ میں چلنا مجھے اب تک مرے احساس کی شدت جلاتی ہے کروں پرواز تو کھینچے […]

سمندر میں اترتے جا رہے ہیں

یہ دریا جو بپھرتے جا رہے ہیں ہواؤں کے مقابل ڈٹ گئے تھے سو، اب ہر سُو بکھرتے جا رہے ہیں اکائی کی وہی خواہش دلوں میں بدن دونوں ٹھٹھرتے جا رہے ہیں وہ چہرہ فتح میں کیسا لگے گا اسی نشے میں ہرتے جا رہے ہیں کتابِ وصل کی تکمیل کر کے حروف اس […]

نیند آتی کہاں ہے آنکھوں میں

رات ہر دم جواں ہے آنکھوں میں ہونٹ تو مسکراتے رہتے ہیں دولتِ غم نہاں ہے آنکھوں میں وہ بظاہر ذرا نہیں بدلی اجنبیت عیاں ہے آنکھوں میں ڈار سے کونج کوئی بچھڑی ہے وحشتوں کا سماں ہے آنکھوں میں ہم جہاں روز چھپ کے ملتے تھے وہ کھنڈر سا مکاں ہے آنکھوں میں آنکھوں […]

ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا

ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب کھوئی ہے […]

کب میسر ہے ہمیں اپنا سہارا ہونا

کس قدر بانٹ گیا ہم کو تمہارا ہونا میں ، مرا کمرہ ، تری یاد ، سلگتا سگرٹ کیا اسی چیز کو کہتے ہیں گزارہ ہونا وہ مرے بعد بھی خوش ہو گا کسی اور کے ساتھ میٹھے چشموں کو کہاں آتا ہے کھارا ہونا تو محبت کا ہے تاجر تو یقیں کر تجھ سے […]

اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی

اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اُس باس میں تھی تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا خالی شاخ تھی اور اِس رُت کی آس میں تھی تونے آس دلائی مجھ کو جینے کی میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی یاد تو کر وہ لمحے وہ راتیں وہ دن میں بھی تیرے […]

آخری بار جب ملے ہم لوگ

شہر میں ہر جگہ دکھے ہم لوگ بات ہوتی نہیں تھی آپس میں پھر بھی اک دوسرے کے تھے ہم لوگ اس نے محفل میں بیٹھنا تھا جہاں اس طرف دیکھتے رہے ہم لوگ ایک نمبر سے کال کیا آئی رات بھر جاگتے رہے ہم لوگ رہنما راہ میں فرار ہوا یونہی اک سمت چل […]

رخ حیات کی تصویر ہیں مری غزلیں

حدیث قلب کی تفسیر ہیں مری غزلیں خلاف صنف غزل جو زبان کھولتے ہیں انہیں کے واسطے شمشیر ہیں مری غزلیں عیاں ہوں ان سے اگر رنج و غم تو کیا حیرت مسافران رہ میر ہیں ہیں مری غزلیں تو انکو لفظوں کی بازی گری سمجھتا ہے مرے لئے مری جاگیر ہیں ہیں مری غزلیں […]

جو زلف یار لہرائی بہت ہے

یہ دل اسکا تمنائی بہت ہے مرا دامن نہیں خالی کہ اس میں متاع درد تنہائی بہت ہے تری خاموش آنکھیں کہہ رہی ہیں غضب ہے ان میں گویائی بہت ہے میں جھوٹے شہر کا باسی ہوں لیکن مری باتوں میں سچائی بہت ہے یہ صحرائے محبت ہے مسافر یہاں پر آبلہ پائی بہت ہے […]

میں اہل زر بھی نہیں، اہل سلطنت بھی نہیں

سو میرا کوئی خبر گیر خیریت بھی نہیں زمین کیوں مجھے چشم حسد سے دیکھتی ہے اگرچہ میں کوئی شخص فلک صفت بھی نہیں کسی نے پھر مرے جذبوں کا آج خون کیا بڑا عجیب ہوں میں، طالب دیت بھی نہیں اے سادہ لوح تو یاں کامیاب نئیں ہوگا ترے وجود میں تھوڑی منافقت بھی […]