صبح آتا ہوں یہاں اور شام ہو جانے کے بعد

لوٹ جاتا ہوں میں گھر ناکام ہو جانے کے بعد ڈھانپ دیتے ہیں ہوس کو عشق کی پوشاک میں لوگ سارے شہر میں بدنام ہو جانے کے بعد اک ہجومِ یاد ہوگا اِن گلی کوچوں کے بیچ دیکھ شہرِ دل کی رونق شام ہو جانے کے بعد یاد کرنے کے سوا اب کر بھی کیا […]

خوشبو گلاب میں خوش، پتّا شجر میں خوش ہے

خوشبو گلاب میں خوش ، پتّا شجر میں خوش ہے جو بھی ہے اپنے اپنے دیوار و در میں خوش ہے پیروں پہ جو کھڑا ہے ، یہ ہے زمین اُس کی ہے آسمان اُس کا ، جو بال و پر میں خوش ہے یہ ہجر کون جانے ، یہ بات کون سمجھے میں اپنے […]

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا پھر لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا […]

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے اس تاریک فضا میں میری ساری عمر دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے تجھ سے اُکتا جانے کی ایک ساعت بھی تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے دیواروں […]

کبھی بُھلا کے، کبھی اُس کو یاد کر کے مجھے

کبھی بُھلا کے ، کبھی اُس کو یاد کر کے مجھے جمال قرض چُکانے ہیں عمر بھر کے مجھے ابھی تو منزلِ جاناں سے کوسوں دُور ہوں میں ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام مِرا بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے […]

ایک ہی جیسے لگے سُننے میں افسانے کئی

ہو بھی سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہوں ہم سے کئی چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کیلئے آنے جانے کیلئے جس گھر میں ہوں رستے کئی آدمی کے پر لگے ہیں جب سے سمٹی ہے زمیں اب تو جینے کے لئے درکار ہیں چولے کئی ٹھن گئی ہے اس لئے تقدیر اور تدبیر […]

کھلیں گلاب تو آنکھیں کھلیں اچُنگ چلے

پون چلے تو مہک اسکے سنگ سنگ چلے ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے کسی کا ہو کے کوئی کس طرح رہے اپنا رہِ سلوک پہ جیسے کوئی ملنگ چلے طویل رات ہے ، بھیگی سحر ہے ، ٹھنڈی شام بڑے ہوں تھوڑے سے دن […]

ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود

دنیا سمٹ رہی ہے، بکھرنے کے باوجود راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود اس بحرِ کائنات میں ہر کشتی انا غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود زیرِ قدم […]

ہے چُبھن مستقل قرار کے ساتھ

پھول ڈالی پہ جیسے خار کے ساتھ صبح کا انتظار ہے لیکن بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ خواہشِ باغباں ہے یہ شاید زرد رُت بھی رہے بہار کے ساتھ میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ

مری نظر میں تری آرزو نظر آئے

مجھے وہ آنکھ عطا کر کہ تو نظر آئے کلام اپنا سمو دے وجود میں ایسا کہ میری چپ میں تری گفتگو نظر آئے میں جب بھی آئنہ دیکھوں غرورِ ہستی کا تو ایک عکسِ عدم روبرو نظر آئے ہٹا دے آنکھ سے میری یہ خواہشات کے رنگ جو چیز جیسی ہے بس ہوبہو نظر […]