اگرچہ یہ چاند پر کسی آدمی کا پہلا قدم نہیں ھے

مگر ترے در پہ میرے پہلے قدم کا چرچا بھی کم نہیں ھے ھمارا غم مُلک بھر میں پَھیلا ھے، کونسی آنکھ نم نہیں ھے ھمارے بندھن کا ٹوٹ جانا سقُوطِ ڈھاکہ سے کم نہیں ھے تُو عشق بھی ھے عقیدہ بھی ھے، مَیں تیری خاطر لڑُوں گا سب سے جو تُجھ کو اچھا نہیں […]

تُو حاکم ھے تو اِن آفات پر رو کیا رھا ھے ؟

ھمیں بتلا ھمارے دیس میں ھو کیا رھا ھے ؟ ترے ھاتھوں پہ ھیں کم سِن لہُو کے سُرخ دھبّے ارے ! یہ داغ مِٹنے کے نہیں، دھو کیا رھا ھے ؟ اور اب فصلِ اذیّت کاٹنے میں شور کیسا ؟ اگر بوتے ھوئے سوچا نہیں بو کیا رھا ھے گُلابی عصمتوں کو نوچ کر […]

مری دیوانگی خود ساختہ نئیں

میں جیسا ہوں میں ویسا چاہتا نئیں سکوں چہرے کا تیرے کہہ رہا ہے کہ اے دشمن تو مجھ کو جانتا نئیں یہ دل گستاخ ہوتا جا رہا ہے کہ سنتا ہے مری پر مانتا نئیں مجھے ڈر ہے محبت میں اگر وہ کہیں کہہ دے خدانخواستہ نئیں اگرچہ دل کہیں پر ہار آیا مگر […]

پِھر ترازُو ہو گیا یادوں کا چھرّہ جِسم میں

اور پُورا کھود ڈالا ایک درّہ جِسم میں عِشق موروثی تھا، مُجھ سے کیسے تُجھ کو لگ گیا؟ مُجھ کو والد سے مِلا تھا ایک زرّہ جِسم میں ذہن و دِل میں لا کے رکھا، پر چُھوا ہرگِز نہیں میں نے خُود سے بھی تُجھے رکھّا مبرّا جِسم میں وصل میں بھی ایسے دم نِکلا […]

ذرا ہیں لوگ مُختلف، ذرا سی ہے سِپاہ اور

ہے اِس کا نام "​شہرِدِل”​، ہے دِل کا بادشاہ اور ہے دِل کا اور کربلا، ہے مُختلف فُرات بھی کہ اِس کا ہے حُسین اور، ہے اِس کا ذُوالجِناح اور جو میں نے جِسم و رُوح سب ہی پیش کر دئے اُسے تو عاشِقی نے یہ کہا کہ "​ایک دو گواہ اور”​ وہ ہاتھ جوڑ […]

تجھ کو اپنا کے بھی اپنا نہیں ہونے دینا

زخم دل کو کبھی اچھا نہیں ہونے دینا میں تو دشمن کو بھی مشکل میں کمک بھیجوں گا اتنی جلدی اسے پسپا نہیں ہونے دینا تو نے میرا نہیں ہونا ہے تو پھر یاد رہے میں نے تجھ کو بھی کسی کا نہیں ہونے دینا تو نے کتنوں کو نچایا ہے اشاروں پہ مگر میں […]

یاقوت لب کو آنکھ کو تارہ نہ کہہ سکیں

ایسا نہ ہو کہ شعر دوبارہ نہ کہہ سکیں وہ چھب کہ نقرئی کبھی زریں دکھائی دے شعلہ نہ کہہ سکیں جسے پارہ نہ کہہ سکیں سولی کے آسرے پہ ٹکی ہے شکستگی خوش فہمیاں بھی تم کو سہارہ نہ کہہ سکیں ہم کشتگان موج بلا جاں بلب سہی ان دلدلوں کو ہم بھی کنارہ […]

الفاظ ڈُھونڈتا ہے مِرے حسب حال کیا؟

دے گا مِرے سوا کوئی میری مثال کیا؟ جاتا عروج ، کیا مرا ، لے کر اجازتیں؟ آتا ہے پوچھ کر بھی کسی کو زوال کیا؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ حیرت ہے آج بھی اک مستقل ملال کا ورنہ ملال کیا؟ بوسیدگی سے خاک ہوئی جب کہ آرزو کیا سہل رہ گیا ہے […]

مَنّت مانی جائے؟ یا کہ دم کروایا جا سکتا ہے؟

ربّا ! میرے سَر سے کیسے عِشق کا سایہ جا سکتا ہے؟ میں تو پیار میں داؤ سے پہلے بھی اِتنا جانتا تھا کہ اِس بازی میں سارے کا سارا سَرمایہ جا سکتا ہے سُن اے پگلی! دُنیا میں عِزّت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا لیکن تیری خاطر تو یہ سب ٹُھکرایا جا سکتا […]

یکسر مبالغہ بھی سخن ساز کا نہ تھا

ہمسر کوئی بھی سُر تری آواز کا نہ تھا سو تجربوں کی کوکھ سے پھوٹی ہے بزدلی یہ خوف مرحلہ کوئی آغاز کا نہ تھا وہ آسماں قبول نہیں تھا جنون کو درپیش مسئلہ مجھے پرواز کا نہ تھا مجھ کو شکوک تھے مرے اپنے نصیب پر منکر وگرنہ میں ترے اعجاز کا نہ تھا […]