شامل ہے یہ سوال بھی اب کے ملال میں

کیا کر لیا جنوں نے چوالیس سال میں اب سُست پڑ چلی ہے روانی خیال کی اب فرق آ گیا ہے لہو کے اُبال میں باقی اگر سفر ہے تو اُترائیوں کا ہے صحراء نوردِ عُمر ہے دشتِ زوال میں آخر کو اختیار فقیری ہی کی گئی راضی ہوا نہ عشق کسی اور حال میں […]

جو دل دھڑک رہے تھے وہ دف بھی نہ ہو سکے

اس بار معرکے میں ہدف بھی نہ ہو سکے پھر ڈھونڈنا پڑا ہے اسی چیرہ دست کو یہ خواب اپنے آپ تلف بھی نہ ہو سکے موتی تو ہو چکا تھا دل و جان سے کوئی لیکن یہ ہاتھ ہیں کہ صدف بھی نہ ہو سکے اس صف شکن جنونِ بلا خیز کے لیے اپنے […]

راکھ ہوتے ہوئے ہاتھوں کی جلن ایک طرف

کشتہِ شب نہ ہوئی حسرتِ خورشید بکف دل دھڑکتا ہے ، طَبَل ہو کے سرِ قضاء درد بڑھتا ہے رگ و پے میں بجاتے ہوئے دَف جا گرے لاج کے پاتال میں اُٹھتے بادل رہ گئی قطرہِ نَیساں کی طلب گار صدَف تُو کہ اب زَد پہ زمانے کی بذاتِ خود ہے کٹ گری ہے […]

قافلے یا راستے یا نقش ِ پا کچھ بھی نہیں

قافلے یا راستے یا نقشِ پا کچھ بھی نہیں کُرہِ آتش پہ آتش کے سوا کچھ بھی نہیں کیوں اُلٹ دیجے نہ آخر عمر کی زنبیل کو یوں بھی اس کمبخت میں باقی رہا کچھ بھی نہیں جس کو چھُوتا ہے اُسے پتھر بنا دیتا ہے دل اور اس کے لمسِ قاتل سے بچا کچھ […]

پس ِ نقوش بھی میں دیکھنے پہ قادر تھا

پسِ نقوش بھی میں دیکھنے پہ قادر تھا تمہارے حسن کو دیکھا ہے دُور تک میں نے جنوں کے سُرمئی بادل کی پُشت پر بیٹھے سفر کیا ہے جہانِ شعور تک میں نے وہ بے نیاز ، مری خود سپردگی دیکھے کہ تج دیا ہے وفا کا غرور تک میں نے عدم کی وسعتِ بے […]

پا ہی گئی ہے خاک ٹھکانہ ، خاکِ ازل کی پرتوں میں

رزقِ مسافت ٹھہرے ہیں ہم جذب ہوئے ہیں رستوں میں آج بھی ہے میراثِ جنوں میں دِل کو خیانت نا ممکن یوں تو عیب ہزاروں ہوں گے ہم ایسے کم بختوں میں آؤ ، عمر کے عرشے سے کچھ دیر سمندر کو دیکھیں آخر کو تبدیل سفینہ ہو جانا ہے تختوں میں تم نے بس […]

نظر میں برق سی اِک ثانئے کو لہرائی

چھپا گئے ہو بخوبی مگر شناسائی عجب ہوا کہ شکستِ یقین کی چادر ستم ظریف تری اوڑھنی نکل آئی جگر کے زخم کہاں نشتر نے سینے تھے بساطِ عشق میں کب تھی مری مسیحائی ملال ہے کہ محبت کی بارگاہ سے بھی دلِ تباہ کے حصے میں بے دلی آئی گری ہے دوشِ تمنا سے […]

نا رسائی کی تکالیف اُٹھاؤ کب تک

تم جو بالفرض نبھاؤ تو نبھاؤ کب تک خشک ہوتی ہوئی جھیلوں پہ کہاں تک تکیہ سوکھتے نخل کے دامن میں پڑاؤ کب تک رجز پڑھنے ہیں ابھی اور ، مسیحا ، میں نے کچھ بتاؤ کہ بھرے گا مرا گھاؤ کب تک ہار جاتا ہوں چلو پھر سے مگر تم ہی کہو آزماؤ گے […]

ترا کرم بھی حقیقت ہے جانِ حرف ، مگر

سخن عطاء ہے ، کوئی اکتساب تھوڑی ہے ہزار پشت سے اجداد نے وراثت میں نظر میں برق ، تو ہونٹوں پہ پیاس چھوڑی ہے ترے حضور کھڑے ہیں ، تو اتفاق نہیں کہ ساربانِ ازل نے مہار موڑی ہے عجیب سنگ نما ، خار خار منظر تھے جنہوں نے چشمِ تحیر بدوش پھوڑی ہے […]

کس کی بساط میں ہے رفُو چاکِ شوق کا

بالفرض کام چارہ گروں تک بھی آ گیا وہ جس کے ڈر سے میں نے مسافت تیاگ دی آخر وہ باد گرد گھروں تک بھی آ گیا مستول رہ گئے ہیں سفینے کے نام پر پانی بلند ہو کے سروں تک بھی آ گیا نوبت وہ آ گئی ہے کہ پرواز کر سکے ؟ یعنی […]