سرشار عشق میں نہ طلب گار تخت ہے

دل اپنی مفلسی کی ہواؤں میں مست ہے تن جھڑتا جا رہا ہے کسی دکھ سے اسطرح جیسے ہوائے تند میں سوکھا درخت ہے ہر تان پر رگوں میں لہو ہو رہا ہے خشک احساس کے نواح میں وہ سوز ہست ہے آنکھیں بجھی چراغ بجھے خواب بھی بجھے ہے کوئی جو ہماری طرح تیرہ […]

قریب آ کے ہمیں اور دور جانا تھا

چراغ جلتے ہی آنکھوں کا نور جانا تھا تمہیں بھی جاہلوں کے پیر چھونے آگئے ہیں تمہیں تو میں نے بڑا با شعور جانا تھا وہ ڈوبنے کی اداکاری کرتے ڈوبا ہے وگرنہ میں نے مدد کو ضرور جانا تھا بچھڑ کے آپ سے دنیا کے ہو گئے تو کیا کسی طرف تو ہمیں اب […]

لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے

وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے یہ شہر ابنِ زیاد اور یزید مسلک ہے یہاں پہ سوچیے گا اعتکاف کرتے ہوئے چراغ ہم نے چھپائے ہیں کیا تہہ _ دامن ہوائیں گزری ہیں دل میں شگاف کرتے ہوئے نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے […]

نت نئے رنگ بدلتا ہے کسک مانگتا ہے

زخم سچا ہو تو ہر وقت نمک مانگتا ہے میں نے جس شخص کو صحرائی سمجھ رکھا تھا اس کے چہرے سے ہر اک پھول مہک مانگتا ہے ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر دہکے بدن میں تاحال ایسا شعلہ جو لپک دے کے لپک مانگتا ہے میرے دشمن مرا ادنیٰ سا تعارف یہ ہے میں وہ […]

چراغ نیند کی محراب تک نہیں آیا

قسم ہے آنکھ میں اک خواب تک نہیں آیا سبھی نے شوقِ شہادت میں سر کٹا دئیے ہیں کوئی بھی جنگ کے اسباب تک نہیں آیا ہمارے عشق سے کیسے ملے جنوں کو فروغ ہمارا عشق تب و تاب تک نہیں آیا ابھی مشیتِ خالق نہیں پڑھی تونے ؟ ابھی تو سورہء احزاب تک نہیں […]

کبریا شخص کبھی وقت کے قانون کو دیکھ

آگرہ دلّی نہیں کہہ رہا رنگوں کو دیکھ وصف دریاؤں کے گنوانے سے پہلے اے شخص مدحت دشت میں اپنے لکھے مضمون کو دیکھ ایک ایمان بھرے جسم کو ٹھکرا آیا اے مسلمان محبت دل ِ ملعون کو دیکھ ایسا منظر نہیں ہر روز نظر آتا دوست خاک پر لاش کی تصویر بنے خون کو […]

کوئی کہاوت نہیں نہ کوئی حدیث ہے دوست شور میں بھی جو کان کھولو

سماعتوں پر سکوت کی دستکیں لگاتار ہوں اگر تو زبان کھولو طویل عرصہ گزر گیا ہے اداس آنکھیں لیے خسارے کمارہے ہو بہت کہا تھا نہیں بکیں گے نہیں بکیں گے نہ آںسوؤں کی دکان کھو لو ہنروری سے کٹے ہوئے لوگ ناامیدی پہ روزوشب یہ ڈٹے ہوئے لوگ زمیں نہیں جن سے کھل رہی […]

کوفیوں جیسے مومنین کے نام

یہ غزل ہے منافقین کے نام ایک نعرہ خرد کی حالت میں دن بہ دن بڑھتے جاہلین کے نام خاک کے ساتھ ہو گیا ہوں خاک اور میں کیا کروں زمین کے نام اک طوائف کے جسم پر لکھے ہیں شہر کے سارے صالحین کے نام ضبط کے ضابطے گماں کے سپرد آہیں گریہ لہو […]

کیا ہوا عمر گزاری ہے اگر تنہا بھی

وقت کٹ جائے غنیمت ہے کٹے جیسا بھی بستیاں لوگ بساتے ہی اجڑ جاتے ہیں زندگی کھیلتی ہے کھیل کبھی ایسا بھی وقت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں ایسے دشت کی دھوپ بھی ہم لوگ ہیں اور دریا بھی خون ِ معصوم کی عطرت ہی نہیں اس پہ عیاں حرملہ تیر پہ لکھا ہے […]

گزشتہ غم کا تدارک ہے اور مداوا ہے

چل اٹھ دلا کہ نئے عشق کا بلاوا ہے اُداسی اپنے تئیں کر رہی ہے مجھ میں قیام یہ زہرِ عشق نہیں عشق کے علاوہ ہے تمام شہر ہے اس کا مرید گر چہ وہ شخص فقیر پیر قلندر ولی نہ باوا ہے مرے چراغ مرے خواب کر قبول اے شخص ترے مزار سے چہرے […]