بے اختیار تھا ، ناقابلِ معافی تھا

مگر یہ ہجر ترے عشق کی تلافی تھا قدیم لوگ محبت پہ جاں چھڑکتے تھے نیا بیانیہ پہلے سے اختلافی تھا تمام حرف ِدعا معتبر ہوئے لیکن مگر وہ نقطہ جو میرے لیے اضافی تھا تمام عمر بنا دیکھے سوچنا اُس کو تمام عمر یہی ایک درد کافی تھا ہم ایک دوری پہ کرتے رہے […]

جب ترا عکس تخیل کی ردا تک آئے

گنگناتی ہوئی صحرا میں صبا تک آئے تجھ کو جب یاد کیا اتنی پذیرائی ملی پھول ہی پھول مرے دست دعا تک آئے اے مری پہلی محبت ترے پندار کی خیر ہم تری کھوج میں نکلے تو خدا تک آئے پہلے چاہا تھا کسی عکس کو اک دوری سے پاس جب آئے تو پھر اس […]

خود کشی میں نے ملتوی کر دی

میں بناتا رہا وفا کی لکیر میرے ہاتھوں میں تھی دعا کی لکیر خود کشی میں نے ملتوی کر دی جب ابھرنے لگی قضا کی لکیر وقت کے ہاتھ فیصلے تھے اور پتھروں پر لکھی خدا کی لکیر خواب کو راستہ دکھاتی گئی آسماں تک وہ انتہا کی لکیر جرم ثابت نہیں ہوا میرا کھینچ […]

ذرا جو ہوتی کہیں خواہشِ نمو مجھ میں

تو سبزہ پھوٹنے لگنا تھا چار سو مجھ میں میں جس کو ذات سے باہر تلاش کرتا ہوں بھٹکتی پھر رہی ہے اب بھی کوبکو مجھ میں میں جب بھی درد کی شدت سے ٹوٹ جاتا ہوں تمھاری شکل ابھرتی ہے ہوبہو مجھ میں ترے شکستہ ارادوں کو میں سنبھالوں گا معاملہ کوئی ایسا اٹھا […]

سجا رہا ہے جو اب دل کے آئنے میں مجھے

وہ چھوڑ جائے گا اک روز راستے میں مجھے بھلا کے اس کو میں سب کچھ ہی بھول بیٹھا تھا سو اُس کو لانا پڑا پھر سے حافظے میں مجھے طلسمِ شب میں گھلی جب حسیں بدن کی مہک جدا لگا تھا ترا لمس ذائقے میں مجھے تو کیا ثبوت نہیں ہے چراغ ہونے کا […]

سجایا گلشن ِ ہستی کو جن گلابوں نے

سجایا گلشنِ ہستی کو جن گلابوں نے کیا ہے زرد مجھے ان کے سبز خوابوں نے اٹھائی جا رہی ہیں انگلیاں بھی چاروں طرف کئی سوال اٹھائے ترے جوابوں نے تمھارے بعد بھی جاری ہیں امتحاں میرے اکیلا چھوڑا نہیں عمر بھر عذابوں نے اٹے ہوئے ہیں اسی دھول میں یہ شام و سحر مجھے […]

سخن کے نام پہ شہرت کمانے والے لوگ

ہماری غزلوں سے مصرع اٹھانے والے لوگ لٹا رہے ہیں زمانے میں آج بینائی کسی کی آنکھ سےسرمہ چرانے والے لوگ بدل چکے ہیں ترے شہر کے گلی کوچے بھٹک بھی سکتے ہیں رستہ بتانے والے لوگ نہ پوچھ زندگی کیسے ، گزارا کر رہے ہیں نئے دنوں میں پرانے زمانے والے لوگ ہم اپنے […]

سمجھ رہے ہیں کسی آسماں میں رہتے ہیں

یہ خوش گمان جو تیرے گماں میں رہتے ہیں ترے خیال میں پل بھر ٹھہر گئے تو بہت ہم ایسے لوگ کہاں داستاں میں رہتے ہیں عجب جنوں ہے ، عجب نارسائی ہے اپنی کہ دشت زاد ہیں ، شہرِ بتاں میں رہتے ہیں جو دن سے تھک کے پہنچتے ہیں گھر تو ساری رات […]

طنابِ ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہوگئی ہے کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے یونہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی […]

عقل تو خوش ہے مری تردید پر

دل کھڑا ہے پر رہِ توحید پر بات نے آخر پہنچنا ہے وہیں ہنس رہا ہوں میں تری تمہید پر سارے بچوں میں مرا بچپن ہی ہے جھنجلاتے ہیں مری تاکید پر سامنا اس سے ہوا ہے آج پھر جی اٹھا ہوں درد کی تجدید پر جائیے تو اب کدھر کو جائیے بیٹھیے تو کس […]