کارِ دشوار
منزلیں گم ہوئیں راستے کھو گئے تیری سیرت سے بھٹکے ہیں ایسے شہا خود کو پہچاننا کارِ دشوار ہے زندگی ریت کی جیسے دیوار ہے تیری رحمت ہمیں پھرسے درکار ہے
معلیٰ
منزلیں گم ہوئیں راستے کھو گئے تیری سیرت سے بھٹکے ہیں ایسے شہا خود کو پہچاننا کارِ دشوار ہے زندگی ریت کی جیسے دیوار ہے تیری رحمت ہمیں پھرسے درکار ہے
رہِ طیبہ میں دیوانہ چلتا ہوا دم بہ دم گرتا پڑتا سنبھلتا ہوا جا رہا ہے سوئے سیدالانبیا شوق ہے رہنما اور کرم ساتھ ہے اک نہ اک دن یقینا پہنچ جائے گا ورد صلِّ علیٰ کا وہ کرتا ہوا
تو ہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماںسوالیہ نشاں تو ہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماں مرے نصیب میں کب تک نہیں زمیں کی جناں دیارِ پاک میں کب ہوگی حاضری میری؟ ہمیشہ سامنے ہے اک ’’سوالیہ سا نشاں‘‘ توہی بتا دے مجھے اے وقار ارض و سماں
اپنے آقا کے خالی شکم پر بندھے پتھروں کو جو دیکھا تو کعبے نے بھی اپنے خالی شکم پر انہیں کی طرح حجر اسود کو باندھا تھا اور آج بھی جی رہا ہے بڑی ہی عقیدت کے ساتھ اپنے آقا کی اس ایک سُنّت کے ساتھ
اے رحمتِ ُکل اے فخر رُسل ہیں آپ کی یادیں نوریں سی سو کیوں نہ آپ کو یاد کریں؟ ہیں آپ کی باتیں میٹھی سی پھر کیوں نہ آپ کی بات کریں؟
بارگاہِ تخیل میں ہیں صف بہ صف امداد بارگاہِ تخیل میں ہیں صف بہ صف دست بستہ ہزاروں کی تعداد میں لفظ اتنے کہ تاروں کی تعداد میں پئے نعت نبی میری امداد میں