کارِ دشوار
منزلیں گم ہوئیں راستے کھو گئے تیری سیرت سے بھٹکے ہیں ایسے شہا خود کو پہچاننا کارِ دشوار ہے زندگی ریت کی جیسے دیوار ہے تیری رحمت ہمیں پھرسے درکار ہے
معلیٰ
منزلیں گم ہوئیں راستے کھو گئے تیری سیرت سے بھٹکے ہیں ایسے شہا خود کو پہچاننا کارِ دشوار ہے زندگی ریت کی جیسے دیوار ہے تیری رحمت ہمیں پھرسے درکار ہے
میں خوفِ عصیاں سے رو کے سویا جو اپنا دامن بھگو کے سویا تو اِک سہانا سا خواب دیکھا کہ روزِ محشر ہے اور میں ہوں مدد کو رحمت تری کھڑی ہے کرم کی برکھا برس رہی ہے گنہ مرے کاغذی مکاں ہیں
مرے آقا زمانے میں تری بخشش نرالی ہے ترے در پہ شہنشاہوں نے بھی بگڑی بنالی ہے نہ مجھ میں کچھ سلیقہ ہے نہ کچھ ُحسنِ مقالی ہے میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں اور اتنا ہی کہتا ہوں کرم کے چند سکیّ دو کشکول خالی ہے
اے رحمتِ ُکل اے فخر رُسل ہیں آپ کی یادیں نوریں سی سو کیوں نہ آپ کو یاد کریں؟ ہیں آپ کی باتیں میٹھی سی پھر کیوں نہ آپ کی بات کریں؟
تمہیں محبت کی پیاس تھی نا؟ سو تم نے میرے سخن کی موجوں پہ دھر دیے لب تمہیں بھی عہدِ ریاء میں تسکین کی طلب تھی سو کر لیا اختیار تم نے جنوں کا مذہب تمہیں ستائش کی آرزو تھی سو تم نے میری نگاہِ بے باک پہ لبادے ہٹا دیے ہیں تمہاری بے کیف […]
چھٹ گئیں محفلیں اور گھر رہ گئے ہم تری دُھن میں محوِ سفر رہ گئے ایک دہلیز چومی تھی جھک کے کبھی اور پھر عمر بھر دربدر رہ گئے رقص کرتے ہوئے ہم دھواں ہو گئے دم بخود ذوقِ اہلِ نظر رہ گئے رقص کیا تھا کہ وحشت کی پرواز تھی کہ پروں کے تلے […]
غبارِ خاطرِ برہم کبھی کا بیٹھ چکا کہولتوں نے بالاخر نقوش کو ڈھانپا خموشیوں میں شکستہ ہوا خدائے سخن زمین شق نہ ہوئی اور نہ آسماں کانپا وہ ماورائے گمانِ شکست ٹوٹ چکا وہ انتہائے سخن کا امیں خموش ہوا جو موقلم سے سحر میں گلال بھرتا تھا دھنک تراشنے والا سیاہ پوش ہوا وہ […]
پھر ایک بار بتایا گیا ، وضاحت سے کہ میں ہوں جذبہِ ناکام ، اور کچھ بھی نہیں مرا یہ زعمِ خدائی ، کہ خود فریبی ہے خیالِ خامِ دلِ خام ، اور کچھ بھی نہیں عبث گمان کا قیدی ہوں، اور کیا ہوں میں کبھی بھی یکتاء و نایاب شخص تھا ہی نہیں میں […]
حیاتِ گزشتہ کے انمٹ خزانے اسی آب اور تاب سے جگمگاتے ہوئے آج تک بھی پرانے زمانے کی ہر اک کہانی کہے جا رہے ہیں اور ان کے سرہانے جو کاغذ کے پرزے ہین ان پہ لکھا ہے کہ یہ چیز کیا ہے، یہ کتنی پرانی ہے اور کن زمینوں سے ان کو برامد کیا […]
حسیں ہاتھوں سے خنجر نے انوکھا کھیل کھیلا ہے رگوں سے خون جاری ہے مگر آنکھوں میں ایسی بے کلی کروٹ بدلتی ہے کہ جیسے انگلیاں کٹنا تو اک معمول ٹھہرا ہو مگر معمول سے ہٹ کر وہ حسنِ بے مثل کیا تھا؟ فقط اک مختصر لمحہ؟ بھلا پلکیں جھپکنے میں وہ جیتا جاگتا منظر […]