مکالمہ
سو میں نے کہا اُس پری زاد سے کہ سُن تو سہی میری آنکھوں کی چاپ مرے دل کے ہونٹوں پہ ہے دم بہ دم ترے حُسن کی راگنی کا الاپ تجھے بھی تو رکھتی ہے دن رات مست تری دھڑکنوں کی جنوں خیز تھاپ تو سچ سچ بتا کیا یہ ممکن نہیں ؟ کہ […]
معلیٰ
سو میں نے کہا اُس پری زاد سے کہ سُن تو سہی میری آنکھوں کی چاپ مرے دل کے ہونٹوں پہ ہے دم بہ دم ترے حُسن کی راگنی کا الاپ تجھے بھی تو رکھتی ہے دن رات مست تری دھڑکنوں کی جنوں خیز تھاپ تو سچ سچ بتا کیا یہ ممکن نہیں ؟ کہ […]
کچھ ایسے جُھوم کے آنکھوں میں جھلملائی ہے شام کہ دھیان میں چمک اُٹھا ہے مثلِ ماہِ تُمام وہ بھولا بسرا نام وہ نام جس سے بج اُٹھتی ہیں گھنٹیاں دل میں بلند ہوتی تھی پھر عشق کی اذاں دل میں اذاں ۔ جنوں کا پیام وہ نام جس کے ادب سے نگاہ جُھکتی تھی […]
نہیں پڑتے حسابِ بیش و کم میں ہم اہلِ عشق ہیں اہلِ قناعت بہت چھوٹی سی اپنی آرزو ہے بہت ہی مختصر ہے اپنی چاہت ترے اِکرام کا ایک آدھ لمحہ ترے اِقرار کی ایک آدھ ساعت کبھی دیدار کے دو چار سِکّے کبھی خیرات میں تھوڑی محبت سحر کے وقت انعامِ تبسم تو شب […]
تُم مری آگ ہو جس کو پل پل میں رکھتا ہوں روشن محبت کی مشعل سے اور اپنی سانسوں کے ایندھن سے اور اس کے شعلوں سے کلیاں بناتا ہوں سرخ اور سبز اور جادو بھری جن کی چنگاریوں سے جُڑی ہیں مری دھڑکنیں جانِ جاں! تم مری آگ ہو تُم مری جھیل ہو جس […]
گائے پپیہا ، ناچے پُروا ، کُوکے کوئل بانوری میں بِرہا کی ماری ناری سپنے دیکھوں پریت کے کجرا رے نینوں میں دمکیں تیور گھبرو مِیت کے !بستی بستی پیٹ ڈھنڈورا، او ری سکھی من موہنی کرشن پیا کی دُوری سے اَدھ موئی ہے رادھا سوہنی موہے ساجن! مانگ میں جب سیندور نہیں ترے نام […]
مُحمّد اظہار الحق اور ثروت حُسین کے لیے(اُنہی کی زمین میں ھدیۂ محبت) انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا رس رُوح تلک بوسے کی تاثیر سے پہنچا پھر مُند گئیں دروازے کو تکتی ھُوئی آنکھیں پیغام رساں تھوڑی سی تاخیر سے پہنچا عُجلت میں پڑے لڑکو ! سُنو میری کہانی مَیں عشق تلک […]
اُس کو دیکھ کے میری آنکھیں ایسی تھیں جیسے صحراؤں کے پالے بچے نے پہلی پہلی بار سمندر دیکھا ہو
جس کے خدّو خال میں چمکے ٹھنڈی میٹھی چھاؤں روپ سروپ سراپا کندن، کیا ماتھا، کیا پاؤں عشق کی کومل تال پہ ہم تھے کتنے مست مگن رنگ، بہار، گلاب، پرندے، چاند، شراب، پَوَن سانولی سُندرتا کی دُھن میں گُم تھے تن من دھن وقت پھر آگے ایسا آیا، پیچھے پڑ گئے لوگ آنکھ جھپکتے […]
زیادہ پاس مت آنا زیادہ پاس مت آنا مَیں وہ تہہ خانہ ھُوں جس میں شکستہ خواھشوں کے ان گنت آسیب بستے ھیں جو آدھی شب تو روتے ھیں، پھر آدھی رات ھنستے ھیں مری تاریکیوں میں گُمشدہ صدیوں کے گرد آلُود، ناآسُودہ خوابوں کے کئی عفریت بستے ھیں مری خوشیوں پہ روتے ھیں، مرے […]
سو آج سلسلۂ روزوشب وہیں پہنچا جہاں سے کربِ مسلسل کی ابتدا ہوئی تھی اُسی مقام پہ آ نکلا ہے پھر سے جادۂ وقت جہاں حیات ترے غم سے آشنا ہوئی تھی یہی وہ موڑ تھا جس پر جنوں بنا مرا دوست اسی پڑاؤ پہ مجھ سے خوشی خفا ہوئی تھی بفیضِ گردشِ دوراں ہوا […]