یوں لگی مجھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
معلیٰ
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
کتنا نقصان ہوا خواب سے بیداری کا اب کہاں لوگ زلیخا سی طبیعت والے اب کسے شوق ہے یوسف کی خریداری کا
اُس نے کہا کہ مجھ سے ملاقات کم کرو میں نے کہا کہ حُسن کا جادو سا چل گیا اُس نے کہا کہ سورۂ یوسف کا دَم کرو
کھولا اپنے اندر سی ہور کسے نوں کیہ کہنا اے رولا اپنے اندر سی
زندگی تالیاں بجاتی ہے آنکھ رہتی ہے بے وجہ پُرنم بے بسی روز مُسکراتی ہے
کون تنہائیاں آباد کرے زینؔ ہر بار میں ہی یاد آؤں وہ کبھی خود بھی مجھے یاد کرے
تو نے لکھا ہے اک ادھورا خط یہ مرے قیمتی اثاثے ہیں ایک تُو اور اک ادھورا خط
مجھے بھولے نہیں بھولا کسی روئے ہوئے کا غم نہ جانے کب، کہاں، کیسے، مجھے ملنے چلا آیا کسی جاگے ہوئے کا غم، کسی سوئے ہوئے کا غم
معجزے خاک پر رقم اُس کے لہر بکھری ہے یم بہ یم اس کی تارے اُترے ہیں خم بہ خم اُس کے
مر مر کے شہرِ ہجر میں جی کر دکھائے تو اپنے ہی ہاتھوں اپنا کلیجہ کیا ہے چاک چارہ گری کرے، کوئی سی کر دکھائے تو