لہجہ حسین شخص کا منظر سے کم
لہجہ حسین شخص کا منظر سے کم نہیں قصہ کرے بیان تو قصہ دکھائی دے اندر کی آنکھ سے بھی کبھی اس کی سمت دیکھ وہ شخص رو رہا ہے جو ہنستا دکھائی دے
معلیٰ
لہجہ حسین شخص کا منظر سے کم نہیں قصہ کرے بیان تو قصہ دکھائی دے اندر کی آنکھ سے بھی کبھی اس کی سمت دیکھ وہ شخص رو رہا ہے جو ہنستا دکھائی دے
ایسے میں میرا خون بھی جمتا دکھائی دے سانسیں ہیں بند اور ہے خاموش دھند بھی لب کھول کچھ تو بول کہ رستہ سجھائی دے
جب بھی میں بھٹکنے لگتا ہوں منزل کا اشارہ دیتی ہے طوفاں کے تھپیڑے سہتا ہوں اور سوچتا ہوں کب آئے گی وہ موجِ اماں جو آوارہ کشتی کو کنارا دیتی ہے
مری دعا ہے کہ ساتوں کو میری عمر لگے دعائے عشق پہ آمین کہنے والے ہاتھ خدایا! یار کے ہاتھوں کو میری عمر لگے
وہ دل کہ جس سے دھڑکنے کا کام لینا تھا عجیب دشمن جاں ہے کہ ساتھ رہنے دیا جسے گنوا کے کوئی انتقام لینا تھا
برف میں ڈوبی ہوئی پتھر کی سِل پر لکھ لیا یعنی میرا نام اس نے لوحِ دل پر لکھ لیا لکھ لیے ماتھے پہ میرے شعر اس نے صاحبو آسماں کے واقعے کو آب و گِل پر لکھ لیا
لایا نہیں خیال گذشتہ صدی کا میں میں خود ہی ایک عہد ہوں اور عہد ساز ہوں پرتو نہیں رہا ہوں کبھی بھی کسی کا میں
عمر اب بے کیف لمحوں کا تسلسل رہ گئی کھا گئی دیمک جبینِ سجدہ ریزِ عجز کو زندگی کی اپسراء محوِ تغافل رہ گئی
دو سے چار، ایک سے دو، پانچ سے دس ہو جاتے ہیں کیا کہا؟ ہجر گُذارا ہے ؟ چلو بتلاؤ ایک لمحے میں بھلا کتنے برس ہوتے ہیں؟
نبی کا حق کیا ادا ہو اس سے ہم اپنی جنت سجا رہے ہیں نبی کی آمد کا ہے تقاضہ نبی کی سنت کا بول بالا نبی کے عاشق ، نبی کی سنت ، حیات اپنی بنا رہے ہیں