خود کو لوگوں کے ترازو میں کہاں تولتی میں
میری مرضی نہیں ہوتی تو نہیں بولتی میں میرا احسان سمجھ جانے دیا ہے تجھ کو ورنہ یہ عشق تو رگ رگ میں تری گھولتی میں
معلیٰ
میری مرضی نہیں ہوتی تو نہیں بولتی میں میرا احسان سمجھ جانے دیا ہے تجھ کو ورنہ یہ عشق تو رگ رگ میں تری گھولتی میں
دئیے کو سورج کی حکمرانی نہیں ملے گی کچھ اس صفائی سے قتل خود کو کیا ہے میں نے کسی کو میری کوئی نشانی نہیں ملے گی
یہ چند روگ مرا کیا بگاڑ سکتے ہیں یہ صرف لوگ ہیں کومل کوئی خدا تو نہیں بھلا یہ لوگ مرا کیا بگاڑ سکتے ہیں
اور پچھتاوا کھیڑوں میں تقسیم ہوا داد کا اک چوتھائی اصلی شاعر کو باقی کالی بھیڑوں میں تقسیم ہوا
یہ صرف شعر ہیں احباب ! خود نوشت نہیں حدودِ وصل میں کیوں پاؤں رکھ نہیں پاتے تو پھر یہ زندگی شداد کی بہشت نہیں؟
فلاں عامل وظیفہ اور فلاں تعویذ دیتا ہے تجھے جھوٹی محبت مل گئی اس پہ قناعت کر یہاں کومل کسی کو کون خالص چیز دیتا ہے
خدا کے نام پر دے دے ، رہے جوڑی سلامت بھلے سب نقش بگڑیں وقت کے طوفاں کے آگے رہے یہ تل ترا کومل ، رہے ٹھوڑی سلامت
خدا کرے یہ نمازیں قبول ہوجائیں تمہارے نام لکھی چٹھیاں تمہارے بعد نجانے گاؤں میں کس کو وصول ہو جائیں
دیکھئے اتفاق راتوں میں میری، اُس کی دعائیں ایک سی تھیں جُفت ہونے کی طاق راتوں میں
جب اس نے ہاتھ میں خنجر اٹھایا، ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا ہماری قسمتوں نےحال بدلا، ستارہ کیسے اپنی چال بدلا؟ جو ہاتھوں کی لکیروں کو ٹٹولا، ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا