فیض چارہ گر کہیے یا عنایت قاتل
فیضِ چــارہ گــر کہیٔے ، یا عنایتِ قاتل ساری عُمر زخموں کو آنسوؤں سے دھوئے ہیں ظُلمت کے دامن سے صبح نـو جنم لے گـی زیست لیکے اُٹھیں گے زہر کھا کے سوئے ہیں
معلیٰ
فیضِ چــارہ گــر کہیٔے ، یا عنایتِ قاتل ساری عُمر زخموں کو آنسوؤں سے دھوئے ہیں ظُلمت کے دامن سے صبح نـو جنم لے گـی زیست لیکے اُٹھیں گے زہر کھا کے سوئے ہیں
نامرادی کا جن سلامت ہے بک گئے زیورات غربت میں ایک بس نوز پن سلامت ہے
گھر کے اندر بھی ہے ماحول اداسی والا کوئی تو ایسی لگا ضرب مجھے کومل جو توڑ کے رکھ دے مرا خول اداسی والا
جز عشق کوئی ریت نبھائی نہیں گئی شکوہ کناں ہے مجھ سے موبائل کا کیمرہ تجھ سے بچھڑ کے سیلفی بنائی نہیں گئی
کہ بچہ جس طرح بازار میں ضد باندھ لیتا ہے اسے کیسے بتاؤں لڑکیاں خود کچھ نہیں کہتیں جو میرے زعم کے انکار میں ضد باندھ لیتا ہے
زینتِ بزم میں سب مثلِ چراغِ یک شب ایک تسبیح کے ہم دانۂ رخشندہ ہیں سب اک نبی ایک حرم ایک کتاب ایک ہے رب
رجے وڈے لوکیں دے جو کتے پئن اتھاں خالی گوچن دھاڑیں ماری پئے بال پروتھی روٹی کھا تے ستے پئن
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی وصل کے دن کی آرزو ہی رہی شب نہ آخر ہوئی جدائی کی