کتنے منظر تھے جو اوجھل تھے مری آنکھوں سے
یار یہ نیند بھی سکتے کی طرح ٹوٹی ہے روز کہتی ہے نہیں یاد نہیں کرتی میں اپنی کومل بھی خدا بخشے بڑی جھوٹی ہے
معلیٰ
یار یہ نیند بھی سکتے کی طرح ٹوٹی ہے روز کہتی ہے نہیں یاد نہیں کرتی میں اپنی کومل بھی خدا بخشے بڑی جھوٹی ہے
چھاؤں میں آکر میں نے پرچھائیں کو ناراض کیا آج وہ کافر مشرک کہہ کر چھوڑ کے جانے والا ہے میں نے جس کے عشق میں اللہ سائیں کو ناراض کیا
فیصلہ فرقت کا اب آسان تو ہونا نہیں سوچتی ہوں دل وہاں کیسے لگے گا دوستا باغ جنت میں کوئی ملتان تو ہونا نہیں
بیرونی طاقتوں کا دباؤ نہیں قبول یہ عشق ہے ، نکاح کی تقریب تو نہیں کیسے کہوں قبول ہے ؟ جاؤ ، نہیں قبول
نجانے مجھ سے کیوں خلق خدا ناراض رہتی ہے کسی نے ان سے پوچھا آجکل کومل کہاں گم ہے؟ بڑا بے زار سا ہو کر کہا " ناراض رہتی ہے "
آپ کرتے میں سج رہے ہیں جناب کیا یہ سرگوشی آپ کی نہیں ہے ؟ کیا مرے کان بج رہے ہیں جناب ؟
تجھے بھی آئینے اب تیری حد میں رکھوں گی میں عمر بھر نہیں تذلیل بھولتی اپنی پلٹ کے آیا تو ٹھوکر کی زد میں رکھوں گی
ایک دن گفتگو بنا لوں گی اس سے جوڑوں گی منفرد رشتہ اس کی بیٹی ، بہو بنا لوں گی
مر ہی جاتی صدا نہ دیتی تو وہ کسی کا بھی ہوگیا ہوتا میں اگر بددعا نہ دیتی تو
گریہ زاروں کی اذیت کا سبب معلوم ہے ؟ مجھ سے بچھڑا ہے تو بولو خوش تو ہے ناں آج کل تم تو اس کے دوست ہو تم کو تو سب معلوم ہے