ہم پہ بھی تھوڑی دیر ترس کھائے زندگی
آئے ہیں ہم بھی ہجر کے آزار کاٹ کر کس جرم میں مجھے یہاں چنوا دیا گیا مجھ کو نکالو جسم کی دیوار کاٹ کر
معلیٰ
آئے ہیں ہم بھی ہجر کے آزار کاٹ کر کس جرم میں مجھے یہاں چنوا دیا گیا مجھ کو نکالو جسم کی دیوار کاٹ کر
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا
میں متمنی نہیں ہوں مال و زر کا، خدا کے ذکر سے دامن بھرا ہے کہا کس نے کہ میں بے آسرا ہوں، مجھے لطفِ خدا کا آسرا ہے کوئی نہ بال بیکا کر سکے گا، محافظ خود مرا، میرا خدا ہے
خدا کا مرتبہ اللہ اکبر، معظم ہے خدا عظمت نشاں ہے خدا ہی خالقِ کون و مکاں ہے، وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے خدا محبوب کی اُمت کا حافظ، کرم فرما، نگہباں، پاسباں ہے
وہ یکتا، منفرد، ربّ العلیٰ ہے، خدائے مصطفیٰ میرا خدا ہے وہ جس نے پیار احمد سے کیا ہے، خدائے مصطفیٰ میرا خدا ہے درُود اکثر ظفرؔ جو بھیجتا ہے، خدائے مصطفیٰ میرا خدا ہے
خدا گرتے ہوؤں کو خود اُٹھا لے خدا انساں کو مشکل میں نہ ڈالے خدا کر دے اندھیروں میں اُجالے
وہ خورشید ایک ذرے کو بنائے کرم کر دے مریضِ نیم جاں پر ظفرؔ کے دل کا ایواں بھی سجائے
سرورِ قلب و جاں تھا ہے نہ ہو گا خدا سا محتشم، ارفع و اکبر کوئی عظمت نشاں تھا ہے نہ ہو گا
محبت، دل لگی اچھی رہے گی خدا معبود ہے عابد ظفرؔ ہے خدا کی بندگی اچھی رہے گی
وبالِ ہجر کب تک سہہ سکو گے وہ سُنتا ہے دُکھی دل کی صدائیں ظفرؔ تم گِڑ گڑا کر کہہ سکو گے