آوارۂ طوفاں کو سنورنا نہیں آتا
ڈوبی ہوئی کشتی کو ابھرنا نہیں آتا ہر گام پہ ہوتا ہے گماں حدِ عدم کا شاید مجھے دنیا سے گزرنا نہیں آتا
معلیٰ
ڈوبی ہوئی کشتی کو ابھرنا نہیں آتا ہر گام پہ ہوتا ہے گماں حدِ عدم کا شاید مجھے دنیا سے گزرنا نہیں آتا
یہ کام بھی خاصانِ حرم کرتے رہیں گے ہم دل کے مہکتے ہوئے زخموں کے سہارے تاریخ تبسم کی رقم کرتے رہیں گے
کریم میری ضرورت کو شرمسار نہ کر میں لفظ لفظ میں سچائیاں پروتا رہوں مری غزل کو غزل کر دے شاہکار نہ کر
یہ ہے پیرِ مغاں کا آخری پیغام اے یارو نہ یہ شام و سحر ہو گی ، نہ باقی روز و شب ہوں گے کہ پیچھے چھوڑ دیں گے گردشِ ایام اے یارو
بیٹا پکارنے والی صدائیں چلی گیئں بخشے گا کون مرہمِ زخم جگر اثرؔ گھر سے ہمارے ماں کی دعائیں چلی گیئں
بے طرح داستاں بدلتی تھی لاکھ بدلے زمانہ اور موسم دل کی حالت کہاں بدلتی تھی
کئی لوگوں سے ملنا تھا کئی قبروں پہ جانا تھا وہی مایوسیاں بستی میں اب تک راج کرتی تھیں انہیں سانپوں کا ہر چوپال پر حجرہ ٹھکانا تھا
وہ خود بھی ویسا نہیں ہے ان دنوں ہر ستم چپ چاپ سہہ لیتے ہیں لوگ جیسے کو تیسا نہیں ہے ان دنوں
ابھی سے اپنی حالت دیکھتا ہوں میں تجھ سے بے وفا کو بھول جاؤں مگر اپنی ضرورت دیکھتا ہوں
رہا میں اس پہ بھی غربت میں گو وطن میں رہا حریص مایۂ ہستی تھا کس قدر آزادؔ تمام عمر تلاش مئے کہن میں رہا