عبادت ہو خُدا کی اِس ادا سے
کہ جیسے ہم کلامی ہو خدا سے کرو اللہ سے اظہارِ محبت نوازے گا وہ رحمت کی رِدا سے
معلیٰ
کہ جیسے ہم کلامی ہو خدا سے کرو اللہ سے اظہارِ محبت نوازے گا وہ رحمت کی رِدا سے
مرے لب پر سدا ہے اسمِ اعظم مرے دل کی ندا ہے اسمِ اعظم ظفرؔ اسمِ خدا ہے اسمِ اعظم
محبت ہو اگر بین المذاہب، بین الاقوامی ظفرؔ انسان آپس میں ملیں مہرو محبت سے فضائیں امنِ عالم کی رہیں قائم دوامی
مکرم ہے خدا ہی محتشم ہے وہی ستّار بھی غفار بھی ہے خطا کاروں کا وہ رکھتا بھرم ہے
نہ دولت مال سے، نہ سیم و زر سے شہنشاہوں نہ سلطانوں کے در سے سکوں پایا ظفرؔ اللہ کے گھر سے
نہیں عقدہ کشا کوئی خدا سا بھرے جاتے ہیں سب کے خالی داماں نہیں حاجت روا کوئی خدا سا
نہیں روزی رساں کوئی خدا سا وہی اعلیٰ و ارفع محتشم ہے نہیں عظمت نشاں کوئی خدا سا
مُقدر کا ستارہ اوج پر ہے جھُکا ہوں میں خدا کی بارگاہ میں مرا قلبِ حزیں ہے چشمِ تر ہے
مشیت ایزدی ہے یہ، یہی فرمانِ قرآں ہے کرو خدمت فقیروں کی، دریدہ جن کا داماں ہے نہ اِنسانوں کے کام آئے، ظفرؔ تو کیسا انساں ہے ؟
عظیم الفاظ میں لاؤں کہاں سے خیالوں میں خدا کی حمد لکھوں کروں پیشِ خدا، سوزِ نہاں سے