آتا ہے نظر خانہ صیاد گلستاں
جانے کا کہاں قصد کریں ہو کے رہا ہم ہنگامِ سحر بادہ گساری کا مزہ ہے اوقات کریں اپنی تلف بہر دعا ہم
معلیٰ
جانے کا کہاں قصد کریں ہو کے رہا ہم ہنگامِ سحر بادہ گساری کا مزہ ہے اوقات کریں اپنی تلف بہر دعا ہم
ہزار مشکل سے بارے رخ پر سے اُس نے الٹا نقاب آدھا خدا کی قدرت ہے ورنہ آزادؔ میرا اور ان بتوں کا جھگڑا نہ ہو گا فیصل تمام دن میں مگر بروزِ حساب آدھا
گر ایک بلا وہ ہے تو ہیں ایک بلا ہم تقدیر پہ شاکر رہے راضی برضا ہم اب کس کی شکایت کریں اور کس کا گلا ہم
محفل میں اگر مجھ سے نہ شرماؤ تو آؤں کیا گھر میں تمھارے در و دیوار کو دیکھوں تم اپنی جو صورت مجھے دکھلاؤ تو آؤں
سنگِ موسیٰ ہو اگر لوں سنگِ مرمر ہاتھ میں تیرے دیوانے کے پیچھے کیا ہے لڑکوں کا ہجوم کچھ ہیں پتھر جھولیوں میں ، کچھ ہیں پتھر ہاتھ میں
کوئی صورت نہیں صفائی کی ڈوب جانے میں کیا رہا باقی آپ سے جب کہ آشنائی کی
ہر شخص کو گزرنا ہے ہر رہگزر سے کیا ؟ یہ راہِ عشق ہے اسے منزل سے کیا غرض اس رہ میں فاصلے کا تعلق سفر سے کیا ؟
اور کوئی آ پہنچا شاید آشیانے سے زندگی کے دھارے پر اور بھی سفینے تھے کتنی کشتیاں ڈوبیں میرے ڈوب جانے سے
گرے بھی تیر کھا کر تو ہوا کا رُخ بتائیں گے ہماری کیا جدائی ہم متاعِ رنگ و بُو ٹھہرے بہاریں جب بھی آئیں گی ، چمن میں ہم بھی آئیں گے
راہ میں فکرِ روزگار بھی ہے ترے وعدے پہ ہم یہ بھول گئے بُھول جانا ترا شعار بھی ہے