خدا مونس، شفیق و مہرباں ہے
خدا ربِّ جہاں، عظمت نشاں ہے خدا موجود ہر انساں کے دل میں خدا ہی قبلہ گاہِ عاشقاں ہے
معلیٰ
خدا ربِّ جہاں، عظمت نشاں ہے خدا موجود ہر انساں کے دل میں خدا ہی قبلہ گاہِ عاشقاں ہے
حبیبِ کبریا کی بات کہنا پذیرائی بھی ہو گی انشاء اللہ ظفرؔ حمد و ثناء دِن رات کہنا
خدا کی حمد میں ہر دم مگن ہوں، سرور و کیف ہے وارفتگی ہے میں مصروفِ ثناء صبح و مسا ہوں، خدا کی حمد سے دِبستگی ہے ظفرؔ کو یوں کیا سیراب رب نے، رہی باقی نہ کوئی تشنگی ہے
قطب ابدال بھی سارے، خدا کے سب پیمبر بھی تمامی اولیاء بھی اور مجذوب و قلندر بھی سبھی راہرو مسافر بھی، سپہ سالار رہبر بھی
درخشندہ سبھی کون و مکاں ہیں منور نُور سے ہی جسم و جاں ہیں ظفرؔ عشاق کے قلبِ تپاں ہیں
خدا ہی خالقِ ارض و سما ہے وہی مختارِ کل، فرمانروا ہے وہی حاجت روا، مشکل کشا ہے
خدائے ہر زماں سب کا خدا ہے خدائے اِنس و جاں سب کا خدا ہے خدا ہی بے گماں سب کا خدا ہے
محمد رحمۃ اللعالمیں ہیں خدا داتا ہے اَور قاسم محمد ظفرؔ دونوں کے در کے خوشہ چیں ہیں
سبھی افلاک سے وہ ماوراء ہے ظفرؔ ڈھونڈھو خدا کو دل میں اپنے شعور ادراک سے وہ ماوراء ہے
بڑی مشکل میں انساں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما پسارا ہم نے داماں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما ظفرؔ گریاں و نالاں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما