کرم فرما خدا کی ذاتِ باری
کرم اُس کا سدا جاری و ساری کرے ابرِ کرم سے آبیاری چلائے حبس میں بادِ بہاری
معلیٰ
کرم اُس کا سدا جاری و ساری کرے ابرِ کرم سے آبیاری چلائے حبس میں بادِ بہاری
رسولِ پاک کی مِدحت، خدا کا حکم ہے یہ کرو انسان کی خدمت، خدا کا حکم ہے یہ کرو جاری سخاوت، خدا کا حکم ہے یہ
ثمر، غنچہ و گل، تازہ ہوا ہیں کوئی اِن کو ظفرؔ جھٹلائے کیسے خدا کی نعمتیں بے انتہا ہیں
مرا خدا انیس ہے، مرا خدا کریم ہے مرا خدا غفور ہے، مرا خدا حلیم ہے مرا خدا عظیم ہے، مرا خدا عظیم ہے
حسینؑ جادۂ جمہوریت کا رہبر ہے حسینؑ جس نے بجھایا یزیدیت کا چراغ علم اُسی کا بلند آج تک فلک پر ہے
حسین کرب و بلا کے مسافروں کا رئیس یزید عالم انسانیت کی گالی ہے کہ جیسے حور و ملائک میں ایک ہے ابلیس
غم حسینؑ ہے اک قرض میرے جینے پر اے کر بلا کی زمیں تو ہی میری جنت ہے لہو گرا ہے محمد کا تیرے سینے پر
تری وجہ سے مری نیند میں تعطل ہے تُو آ گیا ہے تو کر تھوڑا انتظار ابھی کہ میری خود سے ملاقات بھی معطل ہے
ہاں مگر عشق میں نقصان بہت رکھا ہے اب یہ بہتر ہے انہیں اور کوئی گھر لے دوں تیرے دکھ درد کو مہمان بہت رکھا ہے
کہ میں خدا کی طرف تھا نہ آدمی کی طرف سحر سے دو ہی قدم پہلے میرا دم ٹوٹا مجھے اندھیرے سے جانا تھا روشنی کی طرف