اس طرح چُپ ہوں کسی کو پا کے میں
جیسے پھر کچھ کھو دیا پایا ہوا ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں تعبیرِ خواب اپنے ہی خوابوں کا چونکایا ہوا
معلیٰ
جیسے پھر کچھ کھو دیا پایا ہوا ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں تعبیرِ خواب اپنے ہی خوابوں کا چونکایا ہوا
ہر سمت وہاں آج بارود کی بو ہے سڑکوں پہ جو بہتا ہے یہی رنگِ حنائی یہ رنگ نہیں میرے ہی اپنوں کا لہو ہے
نشترؔ یہ عمر بھر کی کمائی نہیں تو کیا لفظوں کو جوڑ لینا کمالِ ہنر نہیں رنگِ غزل لہو سے حنائی نہیں تو کیا
کہاں کسی کے کُھلے لب ، کوئی کہاں بولا تندور میں کبھی زندہ بدن جلائے گئے زباں کوئی نہ کُھلی تھی مگر دھواں بولا
غمِ معاش نے گھر سے نکال رکھا ہے ہمارے بچے غموں سے ہیں بے نیاز ابھی ابھی یہ مورچہ ہم نے سنبھال رکھا ہے
وقت اس میں گزار دیتی ہے لاابالی کا دے کے طعنہ وہ میرا کمرہ سنوار دیتی ہے
کیا برا تھا اگر جدا ہوتے دکھ اٹھاتے نہ ہمسفر بن کر کاش کہ آپ بے وفا ہوتے
گر پڑا ہے جو آنسوؤں کی طرح میں ازل سے تلاش میں اپنی جلتا بجھتا ہوں جگنوؤں کی طرح
کرب ہی کرب لیے لوٹ کے گھر جاؤ گے تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نا کرو تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جاؤ گے
بیداد گرو دادِ وفا کیوں نہیں دیتے رکھو گے کٙشاکش یہ شب و روز میں کب تک تم اپنی انا ہی کو مٹا کیوں نہیں دیتے