نہ پوچھئیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے
کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے لہو کی بوند ہر اک لفظ کو عطا دل کی بقیہ سب مری طبعِ رواں کا حصہ ہے
معلیٰ
کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے لہو کی بوند ہر اک لفظ کو عطا دل کی بقیہ سب مری طبعِ رواں کا حصہ ہے
بوتل کو توڑ ڈالیے ، پیمانہ ہو گیا جب چار مل کے بیٹھ گئے بزمِ عیش ہے دو چار خُم لنڈھا دئیے ، میخانہ ہو گیا
زُہد بھی جھوم جھوم اٹھے ، ایسا کوئی گُناہ کر دی ہے سروش نے جو آج آمدِ دوست کی نوید عرش سے کہکشاں اتار اور اسے فرشِ راہ کر
رِندوں کی طرح لیکن پہنچے ہوئے کم دیکھے خلوت میں نہیں جن سے اُمیدِ کرم کوئی جلوت میں کوئی اُن کا اندازِ کرم دیکھے
کچھ رِند کے بارے میں بھی ارشاد کیا جائے یارو کوئی ایسا غلط اقدام کہ جس سے آئندہ زمانوں میں ہمیں یاد کیا جائے
ٹھکرا کے سب اسرارِ جہاں جاتے ہو وہ رِند ہوں میخانے سے اٹھوں جو کبھی روتی ہے صُراحی کہ کہاں جاتے ہو
آدم کو اس جہاں سے بھی یارب نکال دے میں جا رہا ہوں رقص کُناں بزمِ سوئے دوست کونین کو کوئی مرے قدموں میں ڈال دے
یہاں مسجودِ شب بھر دولتِ سجدہ گُزاراں ہے یہاں تا صبح ہے تسبیحِ گیسو دستِ رنداں میں یہ مے خانہ نہیں صحبتِ شب زندہ داراں ہے
ہم نشیں یہ تو بتا آخر مجھے کیا ہو گیا دیکھنا بیگانگیٔ اہلِ عالم دیکھنا وہ جدا جب سے ہوئے دشمن زمانہ ہو گیا
جب پاس تم نہیں تو بہاروں کو کیا کروں جلووں سے جس کے چاند ستاروں میں تھی ضیاء اب وہ ہنسی نہیں ستاروں کو کیا کروں