جوہری کے پاس آ جائے تو جنسِ بے بہا
دستِ بے توقیر میں ہیرے کا ٹکڑا کچھ نہیں
معلیٰ
دستِ بے توقیر میں ہیرے کا ٹکڑا کچھ نہیں
یوں دیکھتا ہوں جیسے کوئی چیز کھو گئی
کس کو اپناؤں ، کسے راہ کا پتھر جانوں
ترے حق میں ظالم دعا ہو رہی ہے
بُوئے گُل کہاں ٹھہرے ، کس طرف صبا جائے ؟
کمال یہ ہے کہ بیٹھے ہیں سب کگاروں پر
آنکھوں سے نہیں نیند مقدر سے اُڑی ہے
عباس ! روتا رہتا ہے پانی تمہارے بعد
اک سلسلۂ شب کی گرانی سے ملا ہے
جینے کے لیے چاہیے تھوڑا سا جنوں بھی