جو سانس بھی آتی ہے گزرتی ہے قیامت
دن زیست کے یارب ہیں کہ لوہے کے چنے ہیں
معلیٰ
دن زیست کے یارب ہیں کہ لوہے کے چنے ہیں
قلت کے ختم ہوتے ہی بہتات بھی گئی
تم کو کسی گناہ کا موقع نہیں ملا
وہاں شاعر نے پورا شعر اس منظر پہ لکھا ہے
کیا ہوتا جو ورثہ میں ملتا نہ خدا مجھ کو
قسمت زمیں ملی ہے مزاج آسماں مجھے
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
ہائے کیا بات کہہ کے ٹال دیا
ثبوتِ زندگی دیں اور ہم کیا؟