لے کے یادوں کے آج نذرانے
اے وطن آئے تیرے دیوانے
معلیٰ
اے وطن آئے تیرے دیوانے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتے رہنا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے مری زمیں میرا آخری حوالہ ہے سو میں رہوں نہ رہوں اسکو بار ور کر دے
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
کوئی خوش بخت سا اتوار مکمل کر دے
افسانۂ حیات بنی ، پُھول بن گئی جب مسکرائی کوئی کلی اضطراب میں
عشق ہو جائے کسی سے ، کوئی چارہ تو نہیں ؟ صرف مُسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
دیکھا ہے کائنات کا نقشہ کھنگال کر جانے کہاں سے لاتے ہیں یہ لوگ حوصلہ کانٹوں میں پھینک دیتے ہیں پھولوں میں پال کر
بینائی کے طلسم سے آگے بھی دیکھیے منظر کو ایک قسم سے آگے بھی دیکھیے کچھ اور بھی ہیں راز خدوخال سے پرے عورت کو اس کے جسم سے آگے بھی دیکھیے