چکھنی پڑی ہے خاک ہی آخر جبین کو

آئے نہ راس خواب ترے کور بین کو

اک عکس اشک ہو کے کہیں جذب ہو گیا

وحشت ٹٹولتی ہی رہی ہے زمین کو

کیسے نگل گئی ہے پٹاری ، خبر نہیں

مبہوت ہو کے دیکھ رہا تھا میں بین کو

اُس وقت کیوں نہ روک لیا تھا مجھے کہ جب

میں نے جنوں کی پشت پہ رکھا تھا زین کو

تُو حکمرانیوں میں رہا محو ، اور یہاں

اِک لہر لے گئی ہے ترے خادمین کو

اتنا بہت ہے گر مری توہین کے عوض

خیرات مِل رہی ہے مرے منکرین کو

تتلی کا پَر ہے میرا سخن ، نوچ لو تو کیا

کِھلنے سے روک لو گے بھلا یاسمین کو

اِک لمحہِ سکوت ، صفائی سے لے اُڑا

میری نظر بچا کے مرے سامعین کو

پھر فیصلہ کیا ترے دل کے مکان نے

ملبے تلے کچل دیا جائے مکین کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]