التزامِ کیفِ خوش کن، اہتمامِ رنگ و نور

ماہِ میلاد النبی ہے صبح و شامِ رنگ و نور

نور کی آمد کے ہیں تذکار بحرِ نور میں

شعر و مصرع، حرف و لہجہ سب کلامِ رنگ و نور

آسماں سے چل پڑے ہیں نوریوں کے قافلے

قدسیوں کے لب پہ جاری ہے سلامِ رنگ و نور

اِس زمیں پر اور ہی رنگینیٔ ترحیب ہے

نکہتوں نے گاڑ رکھے ہیں خیامِ رنگ و نور

چادرِ تنویر میں لپٹی ہوئی ہیں ساعتیں

وقت بھی خوش ہو رہا ہے پی کے جامِ رنگ و نور

نور بھی تو رنگ ہے اور رنگ بھی گویا ہے نور

آج تو کچھ اور ہی ہے یہ خرامِ رنگ و نور

آمنہؓ کے پاک گھر میں چاند سورج کا ورود

کیا عجب ہونے لگا ہے انتظامِ رنگ و نور

جشن کے جھنڈے گڑے ہیں کعبہ و فاران پر

پھینک رکھے ہیں فضاؤں نے بھی دامِ رنگ و نور

منہ چھپاتی پھر رہی ہیں جوفِ شر میں ظلمتیں

نور اپنے ساتھ لایا ہے پیامِ رنگ و نور

طلعتوں میں ڈھلنے والا ہے نظامِ شور و شَر

ظلمتوں کی تاک میں ہیں اب سہامِ رنگ و نور

گونج ہے مقصودؔ چاروں سمت صوتِ خیر کی

ہر طرف ہونے لگا ہے التزامِ رنگ و نور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]