کارِ عبث رہی ہیں جنوں کی وکالتیں

کب سن رہی تھیں محض حقیقت عدالتیں

پاؤں کہ چادروں سے ہمیشہ نکل گئے

پوشاک کی بدن سے رہیں کم طوالتیں

تم ہو رہے ہم سے مخاطب تو کم ہے کیا

اب کیا بیان کیجے شکستوں کی حالتیں

اب ہیں نصیبِ زعمِ محبت ، ہزیمتیں

اب خواہشوں کا آکر و حاصل خجالتیں

پلتے رہے ہیں خؤن پہ خونخوار سانحے

واجب حروفِ حق کی ہوئی تھیں کفالتیں

ناصر ، سبک مزاج کی ساری نفاستیں

آخر نگل گئی ہیں جہاں کی جہالتیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]