کمتر تھا جذب و شوق، کرم بیشتر رہا

مجھ سا غریبِ حرف ترا مدح گر رہا

گرچہ دُعائے عجز میں اِک بے دلی سی تھی

پڑھتا رہا درود تو بے حد اثر رہا

رحمت نے اُن کی تھام لیا عرضِ حال کو

دل محوِ حرفِ شوق تھا سو بے خبر رہا

تابِ نظر ذرا بھی نہ تھی فرطِ نور سے

پیشِ نظر وہ چہرۂ انور مگر رہا

کہنے کو لَوٹ آئے تھے یہ جسم و جاں، مگر

دِل گردِ رہگذر تھا سرِ رہگذر رہا

اُن کی ثنا نے لاج رکھی حرف و صوت کی

مجھ ایسا بے ہنر بھی بہت مُعتبر رہا

مقصودؔ اُن کے اِسمِ گرامی کی طلعتیں

اِک نور تھا کہ چاروں طرف سر بسَر رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]