سودائے عشقِ شاہِ مدینہ جو سر میں ہے

ہر خاص و عام جانبِ طیبہ سفر میں ہے

دنیائے آب و گل میں وہ آئے تھے صبح دم

کیف و سرور و نور یونہی تو سحر میں ہے

رطب اللساں ہے خالقِ کونین مرحبا

وہ حسنِ خلق اف مرے پیغامبر میں ہے

ام الکتاب آپ کی ہے معدنِ حِکَم

اک حکمتِ خفی کہ جلی ہر سطر میں ہے

ایماں کا نور داخلِ قلبِ عمرؓ ہوا

کیا معجزہ نگاہِ محبت اثر میں ہے

کہتے ہیں جس کو لوگ متاعِ سکونِ دل

گر ہے کہیں تو بس وہ تری رہ گزر میں ہے

امیدوارِ چشمِ کرم ہے ہر امتی

مدت ہوئی سفینۂ امت بھنور میں ہے

اترے گا جا کے روضۂ انور کے قرب میں

اشکوں کا کارواں کہ مری چشمِ تر میں ہے

بے مثل اس قدر ہے وہ آئینۂ جمال

اف شوقِ دید خود دلِ آئینہ تر میں ہے

اوجِ فلک بھی اب مجھے پستی دکھائی دے

معراجِ مصطفیٰ کی بلندی نظرؔ میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]