شوق وہ ہے کہ انتہا ہی نہیں

درد ایسا ہے ، کچھ دوا ہی نہیں

دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں

اس پہ جینے کا آسرا ہی نہیں

یک بہ یک وار دوستوں کے سہے

ایسا باظرف تھا ، مڑا ہی نہیں

میں یہ کہتا ہوں مان جا اب تو

اس کی ضد ہے کہ وہ خفا ہی نہیں

داد خواہی کی کیسے ہو امید

اس نے جب مدعا سنا ہی نہیں

وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا

تو ہے ظالم کہ چیختا ہی نہیں

اس کی یادیں ہیں ، دل ہے، اور ہے غم

مجھ میں اب اور کچھ بچا ہی نہیں

آرزوئے وصال باقی ہے

تُو نہیں ہے تو کیا خدا ہی نہیں

لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی وہ ہے

وہ جو مجھ کو کہیں ملا ہی نہیں

ظلم عاطفؔ پہ ہیں جہاں بھر کے

اور کوئی درد آشنا ہی نہیں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]