تُو اور ترا یہ نام یہاں خاک بھی نہیں

ناصر ، ترا مقام یہاں خاک بھی نہیں

جس کے حروف چوم کے روتی ہے شاعری

وہ قادر الکلام یہاں خاک بھی نہیں

اب کیا کریدتی ہے مرے دل کو روز و شب

ائے زندگی کی شام یہاں خاک بھی نہیں

اس نے بھی تجھ کو بیچ کے کیا پا لیا بھلا

یعنی کہ تیرے دام یہاں خاک بھی نہیں

کل تک تو پھر بھی خاک اڑاتی تھیں وحشتیں

اب ائے سبک خرام یہاں خاک بھی نہیں

اب جا ، نمو کو ڈھونڈ کوئی اور ہی زمیں

اب تو برائے نام یہاں خاک بھی نہیں

ہے لازمی تو آ، تری حجت تمام ہو

ائے عشقِ ناتمام یہاں خاک بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]