یہ تیری نعت کا منظر کہاں کہاں چمکا

ترا کرم ، مرے حرفوں کے درمیاں چمکا

یہ تیرا حرفِ ترنم کہ رتجگے مہکے

یہ تیرا اذنِ تکلّم کہ بے زباں چمکا

سنبھال رکھا تھا دل کو بہ طرزِ طوقِ جتن

اشارہ ملتے ہی یہ تو کشاں کشاں چمکا

وہ آفتابِ نبوت ، وہ وجۂ کون و مکاں

حرا کی کوکھ سے اُبھرا تو کُل جہاں چمکا

لبوں نے بوسے کے منظر میں پھر سنبھال لیا

وہ اسمِ پاک جو لفظوں کے درمیاں چمکا

عجیب لمحۂ معراج تھا ، ورائے گماں

عجیب شب تھی کہ سورج پسِ نہاں چمکا

تمھاری خَلق تھی آغازِ خلقِ نور و وجود

تمھارے نور کے مابعد خاکداں چمکا

وہ میرے حرفوں میں آنے سے بیشتر مقصودؔ

یقیں کے نور میں مہکا ، پسِ گماں چمکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]