اُس ایک نام کو دل میں بسائے پھرتے ہیں

ہم اپنے آپ میں محفل سجائے پھرتے ہیں

اس ایک جلوۂ بے مثل کی تمنا میں

درود پڑھتے ہیں ، آنکھیں بچھائے پھرتے ہیں

کڑی ہے دھوپ مگر ترے چاہنے والے

ترے کرم سے ، ترے سائے سائے پھرتے ہیں

گُدازِ عشقِ محمد جنہیں نصیب نہیں

وہ لوگ سینے میں پتھر اٹھائے پھرتے ہیں

انہیں فلاح و نجاتِ سے کیا مطلب

جو اُن کی سرتِ اطہر بُھلائے پھرتے ہیں

ہم اپنا نامۂ اعمال جانتے ہیں شہا

سرشکِ توبہ سے آنکھیں سجائے پھرتے ہیں

ترا کرم ہو تو اس بوجھ سے نجات ملے

گناہگار ہیں ، گٹھڑی اُٹھائے پھرتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]