اُس ایک نام کو دل میں بسائے پھرتے ہیں
ہم اپنے آپ میں محفل سجائے پھرتے ہیں
اس ایک جلوۂ بے مثل کی تمنا میں
درود پڑھتے ہیں ، آنکھیں بچھائے پھرتے ہیں
کڑی ہے دھوپ مگر ترے چاہنے والے
ترے کرم سے ، ترے سائے سائے پھرتے ہیں
گُدازِ عشقِ محمد جنہیں نصیب نہیں
وہ لوگ سینے میں پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
انہیں فلاح و نجاتِ سے کیا مطلب
جو اُن کی سرتِ اطہر بُھلائے پھرتے ہیں
ہم اپنا نامۂ اعمال جانتے ہیں شہا
سرشکِ توبہ سے آنکھیں سجائے پھرتے ہیں
ترا کرم ہو تو اس بوجھ سے نجات ملے
گناہگار ہیں ، گٹھڑی اُٹھائے پھرتے ہیں