آنکھ کے شیشے پہ کیسا نقشِ حیرانی لگا

اُس کا آنچل سرمئی تھا ، اور مجھے دھانی لگا

حسنِ کامل کو نہ سہہ پائے کئی کم چشم لوگ

چودھویں کے چاند پر الزامِ عریانی لگا

شام ھوتے ھی تجھے تجھ سے چرا لے جاوں گا

لاکھ اپنے آپ پر قفلِ نگہبانی لگا

شہر کی گلیوں میں پھیلا تھا کوئی بے نام خوف

سایۂ جاناں بھی مجھ کو دشمنِ جانی لگا

اچھے وقتوں میں کہا تھا اچھی آںکھوں پر جو شعر

آج یونہی سامنے آیا تو بے معنی لگا

دھیان کے آنگن میں شب بھر وہ اُداسی تھی کہ بس

چاند بھی منجملۂ اسبابِ ویرانی لگا

تیری خوشبو آئی تو سب خوشبوئیں گھل مل گئیں

موتیے کا پھول مجھ کو رات کی رانی لگا

بعد میں کیوں بیچ ڈالا سوت کی اٹی کے مول ؟

پہلے پہلے تو اُسے مَیں یوسفِ ثانی لگا

یوں گلے میرے لگے وہ آیتوں سے نین نقش

جیسے سینے سے کوئی تعویذِ قرآنی لگا

تُو نے تو ھنستے ھوئے رد کردیا تھا میرا عشق

یری پیشانی پہ کیوں داغِ پشیمانی لگا ؟

پھر سُنی آواز کلُ من علیھا فان کی

پہلے پہلے حسن تیرا مجھ کو لافانی لگا

فارسا ! مرجھا نہ جائے یار وہ نخلِ گلاب

پیاس پودے کو لگی ھے ، جا اُسے پانی لگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]