بسائیں چل کے نگاہوں میں اُس دیار کی ریت

بنے گی سُرمہ اڑے گی جو رہگزار کی ریت

اُٹھی جو مکہ سے رحمت چلی مدینہ تک

نسیمِ بادِ بہاری تھی شہسوار کی ریت

قدومِ پاکِ نبوّت کی برکتیں ہیں عیاں

چمک رہی ہے جو اس طرح کوہسار کی ریت

ہے مارمیت سے ثابت یہ دستِ قدرت ہے

عدو کی لے گئی بینائی دستِ یار کی ریت

حضور نظرِ کرم ہو کہ سخت طوفاں ہے

تباہ کر دے نہ عصیانِ بے شمار کی ریت

جو سامنے ہے حقیقیت نظر نہیں آتی

بڑی عجیب ہے آشوبِ روزگار کی ریت

چڑھا ہے زنگ جو اُس پر وہ صاف ہو جائے

اُڑے کچھ ایسے مرے دل پہ اعتبار کی ریت

چلیں جو اسوۂ آقا پہ ہم تو کچھ نہ رہے

چلی ہے آج جو دنیا میں خلفشار کی ریت

خدا کرے وہیں پیوندِ خاک ہو عارف

اُسے بھی ڈھانپ لے اُس کوئے باوقار کی ریت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]