بس ایک بار ہی دیکھیں نقاب میں آنکھیں
ہر ایک رات رہیں پھر تو خواب میں آنکھیں
بس ایک خواب کے باعث ہی آ گئیں ہیں مری
کئی دنوں سے مسلسل عذاب میں آنکھیں
ہزار ایک نظر میں جنہیں سوال ملیں
خموش ہیں وہ کہیں کیا جواب میں آنکھیں
ڈر ے ڈرے سے، وہ سہمے ہوئے سے خال و خد
مجھے حسین لگیں اضطراب میں آنکھیں
نشہ جو گھر کے چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے
ڈھلے گی شام، ملیں گی شراب میں آنکھیں
میں پڑھنے کے لئے اس سے کہانیاں لایا
تو اس نے بھیج دیں رکھ کر کتاب میں آنکھیں
جو دیکھتا ہوں اسے سوچتا ہوں میں قیصر
چھلکتی ہونگی یہ کتنی شباب میں آنکھیں