بس ایک بار ہی دیکھیں نقاب میں آنکھیں

ہر ایک رات رہیں پھر تو خواب میں آنکھیں

بس ایک خواب کے باعث ہی آ گئیں ہیں مری

کئی دنوں سے مسلسل عذاب میں آنکھیں

ہزار ایک نظر میں جنہیں سوال ملیں

خموش ہیں وہ کہیں کیا جواب میں آنکھیں

ڈر ے ڈرے سے، وہ سہمے ہوئے سے خال و خد

مجھے حسین لگیں اضطراب میں آنکھیں

نشہ جو گھر کے چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے

ڈھلے گی شام، ملیں گی شراب میں آنکھیں

میں پڑھنے کے لئے اس سے کہانیاں لایا

تو اس نے بھیج دیں رکھ کر کتاب میں آنکھیں

جو دیکھتا ہوں اسے سوچتا ہوں میں قیصر

چھلکتی ہونگی یہ کتنی شباب میں آنکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]