تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے
مجھے معصیت پہ عبور ہے تو غفور ہے
میں ہوں عیب کار سیاہ رو، تو بڑا غنی
مرا ہر قدم پہ قصور ہے تو غفور ہے
میں ہوں معترف مرا جرم ہے مجھے بخش دے
تو حسیبِ یومِ نشور ہے تو غفور ہے
مجھے امتی کیا اپنے خاص حبیب کا
مجھے اس کرم پہ غرور ہے تو غفور ہے
میں سیاہ کار ہوں بے عمل بڑا نا سمجھ
مجھے صرف اتنا شعور ہے تو غفور ہے
مری ساری عمر گزر گئی تو خبر ہوئی
تیری بندگی میں سرور ہے تو غفور ہے
ہوئے مطمئن مرے قلب و جاں ترے ذکر سے
ترا ذکر جامِ طہور ہے تو غفور ہے