جس کو عورت کا احترام نہ ہو

مجھ سے وہ شخص ہم کلام نہ ہو

میری خواہش ہے عشق ہو مجھ کو

اور پھر اور کوئی کام نہ ہو

جل ہی جائے ہوا ستمبر کی

کوئی اتنا سبک خرام نہ ہو

عام لوگوں کو بھی میسر ہے

اس سے کہنا کہ اور عام نہ ہو

بزدلوں کی بناو فہرستیں

یاد رکھنا کہ میرا نام نہ ہو

ہر کوئی بات کو ترستا ہے

کوئی مجھ جیسا خوش کلام نہ ہو

لاکھ پوجیں اسے حسینائیں

پر وہ پتھر کسی سے رام نہ ہو

مجھ سے برداشت ہو نہیں سکتا

زندگی اور بے لگام نہ ہو

اس جگہ کیا رکیں ، جہاں کومل

چائے پانی کا انتظام نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]