حمد اس کی کروں!
حمد اس کی کروں!
حرف جس نے سکھائے ثنا کے لیے
حمد اس کی کروں!
جس نے پیدا کیے یہ زمیں آسماں
کارواں کارواں روشنی بخش کر
جس نے انساں کو شوقِ عبادت دیا
وہ کہ جس کی طرف
خود بخود سر جھکے
خود بخود دل کھنچے
خود بخود روح کا کارواں چل پڑے
حمد اس کی کروں!
جس نے انساں کو حرفِ دعا بخش کر
دولتیں بخش دیں
رفعتیں بخش دیں
جس نے احساسِ جرم و خطا
دیدۂ و دل کو دے کر انہیں
ذوقِ گریہ دیا
نفسِ لوَّامہ دے کر
ندامت کی بارش کا ساماں کیا
اور حرفِ اِنابت دیا نطق کو
خود گناہوں سے بچنے کی تلقین کی
اور جب اس کے بندے
گناہوں میں گھِر کر
پریشاں ہوئے
تو انہیں حرفِ توبہ کا تحفہ دیا
حرفِ توبہ!
کہ جس کی طرف اس کی رحمت کا میلان ہے
اس کی رحمت ہے غصے سے اس کے سوا
اس کی رحمت!
جو بڑھ کر
گنہ گار کو
ڈھانپ لیتی ہے چادر میں ہر سمت ہے
حمد اس کی کروں!
جس کی رحمت کے سائے
دلوں کے سکوں اور روحوں کی تسکیں کا سامان ہیں
حمد اس کی کروں!
وہ جو رحمت کے در، وا کرے
اور روحوں کی قندیل میں
مغفرت کے چراغوں کو روشن کرے
لب کو توبہ کی توفیق بخشے
دلوں میں اُجالا کرے
مغفرت عام کر کے
مُصَفَّا کرے آئینوں کی طرح
روح و نفس و دل و دیدہ
انسان کے
حمد اس کی کروں!
مہرباں جو ازل سے ہے انسان پر
حمد اس کی کروں!
وہ جو راحم، رحیم اور رحمن ہے
اور معبود بھی
دل کی دھڑکن میں
شہ رگ سے نزدیک رہتا ہے
ہر سمت، ہر راہ، ہر قریۂ جاں میں
موجود ہے
حمد اس کی کروں!
اور کرتا رہوں
جب تلک میری نبضوں میں
جنبش ہے
دھڑکن میں آواز ہے
خون میں رنگ بھی ہے حرارت بھی ہے!
حمد اس کی کروں!
حمد اس کی کروں!