دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں

جنابِ شیخ بھی کارِ حرام کرتے ہیں

خدا پناہ وہ اب ایسے کام کرتے ہیں

کہ فتنے دور سے ان کو سلام کرتے ہیں

یہ چاندنی یہ ستارے یہ عالمِ ہجراں

ہماری نیند یہ مل کر حرام کرتے ہیں

طلوعِ صبح کے آثار دور دور نہیں

دراز وہ تو ابھی زلفِ شام کرتے ہیں

بس اتنی بات پہ یارانِ بزم ہیں نا خوش

پرانی قدروں کا ہم احترام کرتے ہیں

نچوڑ دیں گے ہر آنسو ہم آج آنکھوں سے

ہم آئے دن کا یہ جھگڑا تمام کرتے ہیں

ہجومِ جلوۂ رنگیں میں کھو نہ جائے دل

ہم احتیاطِ نظرؔ گام گام کرتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]