زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں

ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں

چھینا گیا لبوں سے تبسم بنامِ سوز

قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں

اپنے سوا ہر عکس ہی بگڑا ہوا لگا

آئینہ اِس طرح سے دکھایا گیا ہمیں

پہلے تو ایک درسِ اخوّت دیا گیا

پھر حرفِ اختلاف پڑھایا گیا ہمیں

کانوں میں زہرِ کفر انڈیلا گیا ہے روز

پھر کلمۂ یقین سنایا گیا ہمیں

اُٹھ کر پتہ چلا کہ قیامت گذر چکی

ایسا تھپک تھپک کے سُلایا گیا ہمیں

دوزخ کی آگ بھوکے بدن سے لپیٹ کر

وعدہ بہشت کا بھی دلایا گیا ہمیں

تقریبِ دوستاں میں ستم در ستم ہوا

تعظیم دشمناں میں اٹھایا گیا ہمیں

پیشانیوں پہ قیمتیں لکھ کر مثالِ جنس

بے حد و بے حساب کمایا گیا ہمیں

پانی نہیں تھے خون پسینہ تھے ہم ظہیرؔ

سیراب بستیوں میں بہایا گیا ہمیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]