شایانِ شان کچھ نہیں نعتوں کے درمیاں

اِک بے بسی سی ہے مرے حرفوں کے درمیاں

لکھنے لگا ہُوں بوند سمندر کے سامنے

سہما ہُوا ہے شعر بھی بحروں کے درمیاں

جلوہ فگن حضور، صحابہ کے بیچ میں

ہے ماہتاب جیسے ستاروں کے درمیاں

خالص معاملہ یہ حبیب و محب کا ہے

غلطاں ہے سوچ کیوں بھلا ہندسوں کے درمیاں

ساری متاعِ شعر و سخن اس لئے تو ہے

اِک حرفِ نعت اذن ہو حرفوں کے درمیاں

کس کس طرح سے تیرے کرم کو لکھے قلم

اک منفعل وجود ہے لہروں کے درمیاں

یہ زیست اور کچھ بھی نہیں، بابِ شوق میں

اِک لمحۂ فراق ہے خوابوں کے درمیاں

ان کی عطا و جود پہ سو جان سے فدا

میرا شمار ان کے گداؤں کے درمیاں

صدیوں کے ناز، نسبتِ خیرالوریٰ کے ساتھ

مقصودؔ، جی رہا ہوں میں لمحوں کے درمیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]