ضبط کے امتحان سے نکلا

پھُول آخر چٹان سے نکلا

جان تن سے نکل گئی لیکن

تُو نہیں میرے دھیان سے نکلا

نہ نکلنے پہ تھا بضِد سُورج

پھر کسی کی اذان سے نکلا

شجرہ دیکھا گیا تو پتھّر بھی

پھُول کے خاندان سے نکلا

اب مکمل ھوئی ھے یکجائی

عشق بھی درمیان سے نکلا

دے گیا آنکھ کو نمی کا وقار

سچا آنسُو تھا ، شان سے نکلا

دیکھتا تھا چراغ بن کر مَیں

سایہ سا اُس مکان سے نکلا

کیا کہا ؟ اب مری ضرورت نئیں ؟

جا ! تُو میری امان سے نکلا

میری دستک پہ رات عکس ترا

آئنے کے جہان سے نکلا

اُن لبوں پر یقین کرکے مَیں

شہرِ وھم و گمان سے نکلا

داستاں گو کو مارنے کے لیے

سامری داستان سے نکلا

تِیر سا کچھ پلک جھپکتے ھی

ابرُووں کی کمان سے نکلا

گو نکالا گیا وھاں سے مگر

مَیں بڑی آن بان سے نکلا

جس کو پاتال میں کِیا تھا دفن

ساتویں آسمان سے نکلا

اب ھُوں نادم کہ طیش میں فارس

جانے کیا کیا زبان سے نکلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]